جمہوریت ہی غاصبانہ سوچ کا توڑ

حدیث نبویﷺ ہے کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ ہر وہ فعل جو انسانی زندگی اور اعلی اقدار کو نہ صرف تحفظ مہیا کرتا ہو اور ترقی کی منازل کو سہل بناتا ہو یقننا ایسے اقدامات کرنے والے عوام الناس کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اسی لیے دیا گیا کہ وہ زندگی کو بہتر بنانے اور معاشرے میں اپنا مثبت کردارنبھانے میں بااختیار ہو۔ ابتدا سے موجودہ دور تکے کے ارتقائی عمل کا بنیادی مقصد انسانوں میں عزت،احترام اور روداری کو تحفظ اور آزادی رائے کو تقویت پہنچانا رہا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود کے لیے ہر شہری سے اس کی رائے حاصل کی جائے جو انسانیت ہی کی تعظیم ہے۔ایک نظام بدامنی، دہشت گردی اور بدحالی کا راستہ ہے جبکہ دوسری جانب انسانیت کا بول بالا، پرامن اور خوشحالی کی منازل۔ذی شعور انسانوں کا یقینی طور پہ انتخاب امن اور ترقی ہی ہو گا کیونکہ دوام اکثریت پسندی کو ہے نہ کہ عسکریت پسند اور شر پسند کو۔ 

          جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی برابری اور مساوات ہے جو عین اسلام کی روح کی مطابق ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو معاشرت، معیشت اور انسانی ترقی میں نمو کو پنپنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ جس میں انسان اور عظمت انساں کو نمایاں ترجیح دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لفظ جمہوریت کا مطلب اللہ کے قرآن اور نبی ا کرم حضرت محمدﷺ کے فرمان کی روشنی میں انسانی رائے کو شامل کر کے نظام معاشرت کی تشکیل دیناہے جو کہ انسان کو اللہ کا نائب ہونے اور اشرف المخلوقات کا درجہ پانے کیلے ایک خصوصی مراعت ہے جو انسان کو فیصلوں کو خود مختار بناتا ہے۔ یہی حقیقی طرز عمل ہے جواللہ کے شاہکار کی خوبصورتی میں نکھار لاتا ہے اور اپنی رائے کو مسلط کرنے کی صریحا نفی ہے۔

          پاکستان کا آئین اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کی روشنی میں وضع کیا گیا ہے۔ جس میں اسلامی دفعات کا شامل کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کوئی بھی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جاتا۔ انسانی خلیے کی بڑھوتی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق طرز حکمرانی،معاشرت سازی بنیادی طور پر انسانی آباد کاری کو سہولت فراہم کرنا بھی ہے۔ اس لیے معاشرے کی مشکل اور ہیئت میں تبدیلی، اسلام کے زیریں اصولوں کے مطابق ہو تو امت مسلمہ کی خدمت ہی ہے کہ اسے حق ہے کہ ہ وہ اپنے ووٹ سے شریعت اور اسلام میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ترقی کی منازل کو طے کرے اور میں انفرادی و اجتماعی مسائل کا حل نکالا جا سکے اس خاطر ریاست میں موجود باشندے اپنا رہنما چنتے ہیں جو ان کے ہر طرح کے مسائل کو سمجھ کر انہیں آسانی فراہم کرے۔ اس لیے اس نعمت کو کفر کہنا خود ایک جہالت کا واضح ثبوت ہے۔ تاریک ظالمان (تحریک طالبان) سوائے فتنہ پھیلانے لانے کے اور کچھ کام نہیں کر رہی ہے۔ حیرت اس بات کی ہے جو مستقبل کش ہوں نوجوان نسل کے مستقبل کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوں وہ کس مستقبل کی بات کرتے ہیں۔ ان ظالموں نے سوائے خوں ریزی، دنگا فساد، قتل وغارت اور نوجوان نسل کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر کے اپنی شیطانی اور جہنمی سوچوں سے آلود کر کے دوزخ کی جانب دھکیلا ہے۔ان کے گھناؤنے کرتوت ذی شعور زبان اور قلم بیان کرتے لرز جاتی ہے کہ ایسے ان بزدلوں نے معصوم کلیوں کو مسلاروندا،ماؤں کی گودیں اجاڑیں، انسانیت کے نام پر بدنما داغ  بن کر ثابت ہوئے یہ ظالم گروہ کیسے لوگوں کی مختلف رائے کو کفریہ قرار دے سکتے ہیں انسانوں میں قابل عمل قوانین ہی چل سکتے ہیں کوئی شیطانی نظام جس کے تحت بلا تفریق گردنیں اڑائی جائیں ایسے مزموم مقاصد کی تکمیل کسی بھی صورت ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔

          آئین پاکستان کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ چونکہ اللہ تعالی ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیر ے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں جمہوریت، آزادی،مساوات، اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ جس میں مسلمانوں کوانفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں۔ائین آرٹیکل 2میں اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرار دیا گیا اور 2 اے میں قرار داد مقاصد کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔آئین کے آرٹیکل31کے تحت عوام کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے اقدامات کرنا اور قرآن وسنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھنے کے لئے سہولتیں فراہم کرنا حکومت پاکستان کی آئینی دمہ داری ہے۔آرٹیکل 227 سے متصل بعد کے آرٹیکلز اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل اور اس کے فرائض منصبی سے متعلق ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کا مقصد ایک ایسے ادارے کا وجود تھا کہ جو قوانین کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرے۔ ایک بات یاد رکھیں قرآن وحدیث میں کچھ بھی جمہوریت کے خلاف نہیں ہے۔ جو جمہوریت کو قرآن وحدیث کے خلاف سمجھے، اس کو خود ہی سمجھ نہیں یا پھر اس کے ذہن میں فتنہ فسا د ہے کہ وہ عوام کی بہتری نہیں چاہتا۔

           پاکستان میں اسلام کے ہر مسلک کی جماعت ہر سطح کے انتخابات میں کئی دہائیوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں جن میں جماعت اسلامی، متحدہ وحدت المسلمین، تحریک لبیک پاکستان،جمیعت علمائے اسلام، مرکزی جمیعت اہل حدیث سمیت دیگر جماعتوں نے اپنے امید واروں کے ذریعے انتخابات کے تمام مراحل میں مکمل طور پہ فعال ہیں تو کیا یہ نعوذ باللہ کفریہ نظام کیلیے سرگرم عمل رہی ہیں؟ یہ سراسر بہتان،جھوٹ اور فریب پہ مبنی منافرت  اور شر انگیز سوچ کی عکاسی ہے جو باعمل اور باشعور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش اور بھونڈی حرکت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حیرانگی اس بات کی ہے جو علمائے سوء اس ابلیسی شوری ٰ کو مشاورت اور حکمت عملی فراہم کرتے ہیں،وہ کیسے معصوم بچوں کے ٹکڑے کرنے والے وحشیوں اور اسلام کو بد نام کرنے والے اقدامات پہ گنگ زباں ہو جاتے ہیں اور پوچھنا تک گوارہ نہیں سمجھتے کہ تم کس اسلام کی خدمت کر رہے ہو اور انسانوں کا بے دریغ قتل عام کیسے جائز جان سکتے ہو۔ علمائے کرام نبیوں کے وارثین گردانے جاتے ہیں مگر جو اسلام کی تعلیمات کے منافی فتوٰی بازی کرتے ہیں اور لوگوں کو شیطانی امور سرزد کرنے پہ اکساتے ہیں وہ حزب الشیطان کا ہی حصہ ہیں۔تاریک ظالمان(تحریک طالبان) کے نظام عدل کا مکروہ چہرہ عوام الناس باخوبی دیکھ اور جان چکی ہے انسانی دماغ کو اہمیت دینے کی بجائے ان درندہ صفتوں نے بیگناہ انسانوں کے سروں کے فٹبال بنا کر ان سے کھیلا۔ان فارغ العقل ظالموں کے پاس نہ معاشرت نہ معیشت اور نہ ہی کوئی انسانیت کا نظام ہے بلکہ سراسر قبل از اسلام کی جہالت کی بحالی کی ناکام کوشش جاری ہے جس کا جواب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام اور ادارے بھرپور انداز میں دے کر تمام منصوبوں کو ملیامیٹ کر کے مسلسل دھول چٹا رہے ہیں۔

          ریاست اور اس میں موجود معاشرت کی بہتری کی خاطر آپس میں باہمی مشاورت کے عمل کو اسلام میں عظیم القدرسرگرمی سمجھا جاتا ہے چاہے غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کا مسلمان بچوں کو پڑھانے کے مشورہ کو پسند کیا جانا ہو یا غزوہ خندق کے موقع پر فارس کے طرز حرب سے خندق کھودنے کی ترکیب کے مشورہ کو عملی جامہ پہنانا ہو آنحضرت محمد ﷺ نے ہمیشہ اس امر کی حوصلہ افزائی کی یہی بات اسلامی معاشرے میں بسنے والے ہر انسان کو بااختیار بناتی ہے اور اسلام کا حقیقی معنوں میں پر چار کرتی ہے۔

          پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ با شعور راور نیک دل مسلمانوں کے بساتھ ساتھ اس میں بسنے والے ہر فرد کو کرنے کا اختیار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے عین مطابق ہے۔ خارجی، جہنمی اور اسلام کے باغیوں کا ازلی وطیرہ رہا ہے کہ یہ قرآنی آیات، احادیث نبویﷺ اور عظیم جید علماء کی تحقیق کوسیاق و سباق سے ہٹ کر توڑمروڑ کر اپنے غلیظ کاموں کی توجیح پیش کرنا توہین کے بھی مرتکب ٹھہرتے ہیں بلکہ اس کی ترویج بھی کرتے ہیں اور عام انسانوں کو بھی ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ – اسلام اپنے وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہے او وطن سے محبت کرنے والے تفرقہ بازی،دنگا فساد اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہر گزنہیں کرتے۔

          حیرانگی اس بات کی ہے جو علمائے سوء اس ابلیسی شوری کو مشاورت اور حکمت عملی فراہم کرتے ہیں وہ کیسے معصوم بچوں کے ٹکڑے کرنے والے وحشیوں اور اسلام کو بدنام کرنے والے اقدامات پر گنگ زباں ہو جاتے ہیں اور پوچھنا تک گوارانہیں سمجھتے کہ تم کس اسلام کی خدمت کر رہے ہو اور انسانوں کا بے دردی قتل عام کیسے جائز جان سکتے ہو۔ علماء کرام نبیوں کے وارثین گردانے جاتے ہیں مگر جو اسلام کی تعلیمات کے منافی فتوی بازی کرتے ہیں اور لوگوں کو شیطانی امور سرزد کرنے پہ اکساتے ہیں وہ حزب الشیطان کا ہی حصہ ہیں تاریک ظالمان(تحریک طالبان)کے نظام عدل کا مکروہ چہرہ عوام الناس بخوبی دیکھ اور جان چکی ہے۔ انسانی دماغ کو اہمیت دینے کی بجائے ان درندہفتوں نے بے گناہ انسانوں کے سروں کے فٹبال بنا کر ان سے کھیلا ہے ان فارغ العقل ظالموں کے پاس نہ معاشرت نہ معیشت اور نہ ہی کوئی انسانیت کا نظام ہے بلکہ سراسر قبل از اسلام کی جہالت کی بحالی کی ناکام کوشش جاری ہے جس کا جواب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام اور ادارے بھرپور انداز میں دیکھ کر تمام منصوبوں کو ملیامیٹ کر کے مسلسل  انہیں دھول چٹا رہے ہیں۔

          ریاست اور اس میں موجود معاشرت کی بہتری کی خاطر آپس میں باہمی مشاورت کے عمل کو اسلام میں عظیم القدر اقدام سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ اس کی شاہد ہے کہ چاہے غزوہ بدر کے موقع پر کفار کا مسلمان بچوں کو تعلیم و ترویج کے مشورہ کو پسند کیا جانا ہو یا غزوہ خندق کے موقع پر فارس کے طرز حرب سے خندق کھودنے کی حربی تکنیک کے مشورہ کو عملی جامہ پہنانا ہو آنحضرت محمد ﷺنے ہمیشہ اس امر کی حوصلہ افزائی کی ہے یہی بات اسلامی معاشرے میں بسنے والے ہر انسان کو با اختیار بناتی ہے اور اسلام کا حقیقی معنوں میں پرچار کرتی ہے۔

           یاد رکھیے!وطن سے محبت کرنے والے تو فرقہ بازی دنگا فساد اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہرگز نہیں کرتے پاکستان کی غیور اور محب وطن عوام جمہوریت سے متعلق جاہلانہ و باطلانہ موقف کو یکسر رد کرتے ہوئے پاکستان کی تقدیر اپنی رائے اور ووٹ جیسے فریضہ کو سرانجام دے کر تعمیر کرتی رہے گی اور شیطان نواز گروہ کی سوچ کے خلاف پاکستانی سوچ اور پاکستانی طرز زندگی کی تجویز جاری رہے گی۔

 

           اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد