وادی چترال سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون جس نے بین الاقوامی سطح پر فوٹ بال کے میدان میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انکو فوربس مئگزین کی جانب سے انڈر 30 مقابلے کے لیے نامزد کیا گیا۔ علی نے ‘چترال ویمنز سپورٹس کلب’ کی بھی بنیاد رکھی، جو ایک تربیتی اسکول ہے اور کھیلوں […]
وادی چترال سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون جس نے بین الاقوامی سطح پر فوٹ بال کے میدان میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انکو فوربس مئگزین کی جانب سے انڈر 30 مقابلے کے لیے نامزد کیا گیا۔ علی نے ‘چترال ویمنز سپورٹس کلب’ کی بھی بنیاد رکھی، جو ایک تربیتی اسکول ہے اور کھیلوں کی دنیا میں مقامی خواتین کے ٹئلنٹ کو اجاگر کرتا ہے۔ چترال میں ”ہینڈی کرافٹ سینٹر“ قائم کرنے جیسے اقدام کی وجہ سے کرشما علی کو ‘میلان فیشن ویک اٹلی’ میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی اور خصوصی پاکستانی دستکاری، گل کاری اور سوزن کاری کی نمائش کر کے وطن عزیز کا نام روشن کیا۔ چترال پاکستان کا ایسا علاقہ ہے جہاں پہ عورتوں کے لیے کھیلوں کے میدان میں قدم رکھنا تقریبا ناممکن ہے، یہاں پہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی بھی ایک عام بات ہے۔
کرشما علی نے اس سفر میں بہت ساری مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، ایک وقت آیا جب انہوں نے اپنے والدین کی حفاظت اور سلامتی کی خاطر اس کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہنے کا سوچ لیا لیکن کرشما کے والدین نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور ان کی ہمت افزائی کی۔ کووڈ کے دنوں میں کرشمہ نے فنڈ سے اکٹھے کر کے اپنے علاقے کے غریبوں کی مدد کی۔
جب انھوں نے چترال میں عورتوں کے لیے اسپورٹس کلب کا بنیاد رکھا تو اسے کچھ آدمیوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں لیکن انہوں نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف لڑکیوں کے باقاعدہ داخلہ شروع کیے بلکہ اپنی دوستوں اور والدین کی مالی مدد سے انہیں کھیلنے کا ضروری سامان بھی مہیا کیا۔ آج 100 سے زیادہ با صلاحیت نوجوان لڑکیاں سپورٹس کلب میں کھیلوں کی تربیت لے رہے ہیں۔
کھیلوں کے میدان میں کرشمہ علی آج نہ صرف چترال بلکہ پورے پاکستان کی لڑکیوں کے لیے ایک مثالی کردار ھیں۔