محفوظ کار خیر (Safe Charity)

 انسان کی جبلت میں شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ نفع و نقصان کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے اور جزا کو مقدم رکھتے ہوئے نیکی کی جانب راغب ہوتا ہے دین اسلام میں جزا اور سزا دونوں بتا دیے گئے ہیں جس کی بدولت بہترین معاشرے کی تشکیل کی تاریخ شاہد ہے قران کی سورہ الفاتحہ میں انعام والے اور غضب والے افراد کے حوالے سے بتایا گیا ہے اور دعا بتلائی گئی ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا وہ راہ جس پر چلنے والوں پر تو نے اپنا کرم کیا اور گمراہی کے راستے پر جانے سے ہمیں بچا اسی طرح ایمان والوں کو معاشرے میں انفرادیت اور اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیے بھی قرآن و حدیث میں لا تعداد دفعہ مختلف احکامات دیے گئے ہیں اور صلہ رحمی کو رائج کرنے کا حکم دیا گیا اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے مفید ہو۔ اس سلسلے میں صدقہ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے جس کی مختلف شکلیں بتائی گئی ہیں اور افادیت بھی سمجھائی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی بھرپور انداز سے پورا کیا جا سکے اور انسانی معاشرے میں اپنا مثبت کردار نبھایا جا سکے۔

            صدقہ کی مختلف شکلیں جو احادیث نبوی ﷺ میں بیان فرمائی گئی ان میں سے چند پیش خدمت ہیں۔ دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنا صدقہ ہے۔(بخاری: 2518),  اندھے کو راستہ بتانا صدقہ ہے (ابن حبان: 3368),  بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے (ابن حبان: 3368), گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے(ابن حبان: 3377), کمزور آدمی کی مدد کرنا صدقہ ہے(ابن حبان: 3377),  راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا صدقہ ہے(مسلم: 1007), مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا صدقہ ہے(ابن حبان:), اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے(ترمذی: 1956), بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے(ترمذی: 1956), لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے(مسلم:),  سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے(مسلم: 1007),  الحمدللہ کہنا صدقہ ہے(مسلم: 1007), اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے(مسلم: 1007), استغفراللہ کہنا صدقہ ہے(مسلم: 1007), نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے(مسلم: 1007),  برائی سے روکنا صدقہ ہے(مسلم: 1007), ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے(بخاری: 55),  دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے(بخاری: 2518), کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے(بخاری: 2518), اچھی بات کہنا صدقہ ہے(بخاری: 2589), نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے (بخاری: 2518), راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے(بخاری: 2518), خود کھانا صدقہ ہے(نسائی کبری: 9185), اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے(نسائی کبری: 9185), اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے (نسائی کبری: 9185), اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے(نسائی کبری: 9185), کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے(نسائی: 253), اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے(ترمذی: 1963), پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے(ابو یعلی: 2434),اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے(ابو یعلی: 2434), ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے(ابو داود: 5243), آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے(بخاری  تاریخ: 259/3), تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے(مسلم:  1553), بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے(بیہقی شعب: 3367), پانی پلانا صدقہ ہے(بیہقی  شعب: 3368),دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے(ابن ماجہ: 3430),کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے(مسلم: 1009),گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے (ترمذی: 1963),ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے(ابن حبان: 3368), علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے(ابن ماجہ: 243)۔ یقین جانیے کہ اسلام نہایت نرمی، محبت اور باہمی یگانگت کو تقویت دینے والا ایسا بہترین دین ہے جس کا کوئی ثانی ہی نہیں۔

            قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اصل نیکی اس میں نہیں کہ’ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور قیامت کے دن پر فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں پر اور تمام پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں مال دیں اپنے رشتہ داروں کو،یتیموں کو،غریبوں کو،مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں“ (سورہ البقرہ)، اسی طرح ایک جگہ اور فرمایا گیا کہ ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کر وہ اس کے بدلے میں اس کو کئی گنا زیادہ دے گا اور اللہ ہی روزی تنگ کرتا ہے اور کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے  “ (سورہ البقرہ)، پھر اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ”ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالی کی رضا کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہوا اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہو اور اللہ تمہارے ہر کام دیکھ رہا ہے“  قران میں متعدد بار اللہ کے دیے گئے مال میں سے دوسروں پر خرچ کرنے کی تلقین اور ترغیب دلائی گئی ہے اسی طرح سے احادیث مبارکہ بھی انہی خطوط پر صدقہ خیرات کے حوالے سے اہمیت اور افادیت بتاتی ہیں جیسا کہ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا (صحیح المسلم)،  کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں بندے صبح کرتے ہوں اور دو فرشتے اسمان سے نہ اترتے ہوں کہ ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخیل اور نہ دینے والے والے کے مال کو ہلاک کر رہے ہیں (صحیح بخاری) اور صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کرتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے(صحیح الترغیب)،اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھسے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے(صحیح بخاری)، جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور برابر صدقہ کرے اور اللہ حلال کمائی کو قبول کرتا ہے تو اللہ اس کو اپنے دانے ہاتھ لیتا ہے پھر صدقہ دینے والے کے فائدے کے لیے اس کو پالتا ہے جسے کوئی تم میں سے اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ برابر ہو جاتا ہے(صحیح بخاری)۔

            مذکورہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں صلہ رحمی کے سلسلے میں اور دولت کو گردش میں لانے کے حوالے سے واضح طور پر تلقین اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے دین اسلام کی بہترین خوبیوں میں سے صدقہ خیرات زکوۃ اور مال دوسروں پر خرچ کرنا ہے تاکہ دلوں میں نرمی،محبت، اتحاد اور کمزوروں کی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے نبی اکرم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے جنہوں نے ان خوبیوں پر خود بھی عمل کر کے عوام الناس کی خدمت کی جانب تمام مسلمانوں کو خرچ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور جنت کے حصول کی خاطر مسلمان سال بھر خصوصا رمضان المبارک میں دل کھول کے صدقہ،خیرات اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں جس کی تعریف زمانہ کرتا ہے لیکن ان تمام امور کو سرانجام دینے اور محفوظ بنانے کے لیے بھی کہا گیا ہے تاکہ نیکی لاعلمی اور بلا تحقیق کرتے وقت کوئی گناہ یا تخریب کاری سرزد نہ ہو جائے سب سے پہلے آمدن کے حصول کو حلال ذرائع سے یقینی بنانا ہوگا کیونکہ اللہ کے ہاں حرام بالکل بھی قابل قبول نہیں تو پھر اس حرام مال سے نیکیاں جزا کی امید لگانا اعمال کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

             خیال کرنا ہوگا کہ کیا جسے مال دیا جا رہا ہے وہ معاشرے میں کیا سدھار لا سکتا ہے؟ کیا وہ واقعی مستحق ہے؟ کیا وہ تمام شرائط کو پورا کرتا ہے جس کے مطابق وہ اہل قرار دیا جا سکتا ہے؟ مال کے حصول کے بعد وہ شخص،ادارہ یاتنظیم اسے کن امور پر خرچ کرتے ہیں؟کیا میرا دیا ہوا مال کہیں میرے ملک کے خلاف تو استعمال نہیں ہوگا؟ کہیں یہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی کاروائیوں کے لیے تو استعمال نہیں ہوگا؟یہ کون لوگ ہیں؟ان کا تعارف کیا ہے؟ان کی معاشرے میں خدمات کیا ہیں؟کہیں میرے دیے گئے مال سے یہ لوگ اسلحہ بارود اور دیگر دھماکہ خیز اشیاء خرید کر میرے ملک کے لوگوں کے خلاف تو نہیں استعمال کریں گے؟ معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ تو نہیں بنائیں گے؟ کوئی گستاخانہ، انتشار انگیز، فرقہ وارانہ لٹریچر تو نہیں تیار ہوگا؟ کہیں موجودہ دور کے جدید ترین ذرائع ابلاغ کو میرے ملک اور اس کے اداروں کے خلاف استعمال کرنے میں یہ پیسہ صرف تو نہیں کیا جائے گا؟ کہیں میرے ملک کو بدنام کرنے کی خاطر کوئی پوشیدہ مذموم مقاصد کی تکمیل تو نہیں ہوگی؟میری نیکی تو ضائع نہیں ہوگی؟میری نیکی کے بل بوتے پر معاشرے میں توازن بگاڑنے کی کوشش تو نہیں کی جائے گی؟کہیں میرے ملک کی نوجوان نسل کو ورغلاتے ہوئے خود ساختہ جنت کی ٹکٹیں تو نہیں دی جائیں گی؟کہیں میرے دیے گئے مال سے اسلام اور شعائر اسلام کی توہین تو نہیں کی جائے گی؟ کہیں میرا مال خارجی، باغی اور دہشت گردوں کو مضبوط تو نہیں کر رہا؟ کہیں اس مال سے دنیا کے دوسرے ممالک میں امن و عامہ کی صورتحال کو سبوتار کرنے کر کے میرے ملک اور اسلام کے نام کو تو زک نہیں کیا اٹھانا ہوگی؟ کہیں اس مال کے استعمال سے مساجد،سکول، مدارس،بازار،دیگر عوامی اجتماع اور اصلاحی مراکز کو تو نشانہ نہیں بنایا جائے گا؟ کہیں میرے ملک کا مستقبل تو داؤ پر نہیں لگایا جائے گا؟کہیں میری کی گئی نیکی دوسروں کے لیے جان لیوا ثابت تو نہیں ہوگی؟کہیں میں نیکی کر کے دریا میں تو نہیں ڈال رہا؟کہیں میری نیکی چند تخریب کاروں کی بدولت مجھے جنت سے جہنم کی طرف تو نہیں لے جائے گی؟کہیں میں اللہ کی مخلوق کو ایذاء رسانی میں آسانی تو مہیا نہیں کررہا؟کہیں میری تعمیری سوچ کسی تخریبی کاروائی کو عملی جامہ پہنانے میں معاون تو نہیں ثابت ہو رہی؟ کہیں میرا دیا ہوا مال پہ کسی طور پر میرا اپنا ضمیرتو مجھے ملامت تو نہیں کرے گا؟  کہیں میرے امور سرانجام دینے کی خاطر میں خاطر میں اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کوئی مصیبت تو مول نہیں لے رہا؟کہیں یہ میرا عمل ضائع تو نہیں ہوگا؟کہیں میں برکت، رحمت اور شفقت سے تو محروم نہیں کر دیا جاؤں گا؟کہیں معاشرے میں بہتری کی بجائے یہ مال باعث وبال نہ بن جائے؟کہیں اس مال کی بدولت میرے ہم وطنوں پر کوئی مشکلات تو وارد نہ ہو جائیں گی؟ کہیں میں انعام یافتہ لوگوں کی بجائے گمراہی اور اللہ کے غضب میں موجود لوگوں کے راستہ کو لاشعوری طور پر مضبوط تو نہیں کر رہا؟ کہیں میرا تعلق رب سے جوڑنے کی بجائے توڑنے کی ملعون کوشش تو نہیں ہو رہی؟

            یہ وہ سوالات ہیں جو حقائق کی تلاش کی خاطر ہم سب کو اپنے کار خیر کو سرانجام دینے سے قبل دیکھنا ہوں گے، اس کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا ہوگا، انہیں سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی تبھی محفوظ کارخیر کا حصول ممکن ہوگا کیونکہ خیرات میں دیا جانے والا مال ایک سرمایہ کاری ہے جس کا بنیادی مقصد اللہ کی خوشنودی رضا کو حاصل کرتے ہوئے بہترین انجام سے سرفراز ہونا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور دیگر وابستہ قوانین میں اداروں تنظیموں اور مساجد کو رجسٹرڈ کرنے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس حوالے سے تمام صوبوں میں چیرٹی قوانین مرتب کیے گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد نظم و نسق کو قائم رکھتے ہوئے خیراتی امور پر مکمل طور پر چیک اینڈ بیلنس کو برقرار رکھنا ہے۔اس سلسلے میں پنجاب چیرٹیز ایکٹ،بلوچستان چیرٹیز ایکٹ،خیبر پختون خواہ چیرٹیز ایکٹ،سندھ چیرٹیز ایکٹس، محفوظ چیرٹی کو یقینی بناتے ہیں اور اس سلسلے میں من حیث القوم انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ہمیں تمام قوانین کو ا عزت دینا ہوگی مقدم جاننا ہوگا اور اس کے بعد ہی ہم اپنے ان سوالات کے تسلی بخش جوابات پاسکتے ہیں اور اپنے کار خیر کو محفوظ بنا سکتے ہیں اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اگر ہم کوئی نیک کام کریں یا ایک نئی سرمایہ کاری کریں تو ہمیں اس میں نقصان نہ ہو اس نقصان سے بچنے کی خاطر ہمیں تمام محفوظ راستوں کو دیکھنا ہوگا جو ملک اور اسلام دونوں کے حوالے سے ہمیں ا نیک نامی کا باعث بن سکیں۔ اس کے علاوہ تمام امور کو سرانجام دینے کی خاطر ہمیں لوگوں کو بھی مکمل شعور دینا ہوگا کہ نیکیوں کے سلسلے میں جانچ پڑتال کو یقینی بنائیں تاکہ ٓاپ کا دیا ہوا مال واقعتا آپ کو جزا کی طرف لے کے چلے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہو سکے اور جنت کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ بجائے اس کے کہ بے علمی، اہلی ا ورمجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو کر تخریب کاروں دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کریں وہ اپنی مذموم کاروائیوں سے ہمارے پرامن معاشرے کو نقصان پہنچائیں چاہے اللہ کا گھر مسجد ہو یا معصوم بچوں کے سکول ہوں آپ کے سامنے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں اس حوالے سے کیا کیا حرکتیں کی ہوئی ہیں ان کی ابلیسی سوچ کو توڑنے کی خاطر ہمیں ہر حال میں یہ دیکھنا اور جاننا ہوگا کہ ہمارے نیکی اور صدقات کے حوالے سے مستحق لوگ ہیں کون؟ کیا وہ واقعتا پاکستان کے اندر معاشرے میں امن لانے کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں یا وہ کسی اور کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرم اور بدمعاشی سے ملک کا امن خراب کرنے کی شیطانی سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

            یاد رکھیے! یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ محفوظ کار خیر کو یقینی بناتے ہوئے محفوظ، روشن مستقبل اور پرامن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا رستہ ہموار کریں اور ملک کومعاشرتی و معاشی ترقی کی جانب گامزن کریں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد!