اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کا آئینہ دار / قلعہ

 

لاکھوں مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مملکت صرف اور صرف اسلام کے فروغ کے لیے حاصل کی گئی جس کا نام اس کے مقصد کے عین مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا جہاں پہ مکمل آزادی کے ساتھ ہر شہری کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مواقع فراہم کیے گئے لیکن فتنہ پرور عناصر ہر لمحہ ہرزہ سرائیاں کرتے نظر آتے ہیں جو محض جہالت، باطل عقائد اور گمراہی کے راستے کے پرچار کے علاوہ کچھ بھی نہیں بے دلیل سوچ، من گھڑت افسانے اور بے علمی صرف تخریب کاری کی روش ہے جو معاشرے کے اصل تشخص کو مسخ کرنا ہے۔ گزشتہ دہائیوں اور خصوصاً دور حاضر میں منفی پروپیگنڈہ کی جنگ اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے جس میں مخالف سمت سے اٹھنے والی ہر انسان و ریاست دشمن طرز فکر وعمل کا منہ توڑ جواب دینا فرض عین اور حقوق العباد کی تکمیل اولین ترجیح بنتی ہے جو کہ فلاح انسانیت کا بیڑا اٹھانے کے مترادف ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر ان باطل عقائد کا رد کرنا بہترین جہاد ہے تاکہ لوگ گمراہی کے راستے پہ چلنے سے مکمل گریزاں رہیں۔ آئین پاکستان کی روشنی میں اقتدار اعلیٰ کے تصور کے مطابق مطلق حاکمیت صرف اللہ کے پاس ہے اور قرآن کریم کے مطابق انسان کو اللہ کا خلیفہ/ نائب بنا کر دنیا میں مبعوث کیا گیا تاکہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے میں اپنی کوشش جاری رکھے۔

            مسلمان ہمیشہ قرآن و سنت کے آگے سرِ تسلیم خم نظر آتا ہے کیونکہ اس کے تخلیق کار نے جو نظام اس کے لیے وضع کیا ہے اس کا متبادل نہیں کیونکہ وہ اک مکمل ضابطہ حیات ہے جیسے کہ قرآن مجید میں اس بات کا ذکر موجود ہے۔ اور پاکستان کا حصول بھی لا الہ الااللہ کی بنیاد پہ معرضِ وجود میں آیا اور اسلام کو ریاست کا مذہب بھی قرار دیا گیا جہاں 90 فیصد سے زائد مسلمان قیام پذیر ہیں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق بغیر کسی بھی دقت کے گزار رہے ہیں اب کوئی اسلام دشمن اور اسلامی جمہوریہ پاکستان مخالف سوچ عوام الناس اور پاکستان کی ریاست اور اداروں کو کفر اور ارتداد کی گالی دینے کی کوششوں میں مصروف ہو تو کیسے اس امر کو برداشت کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں ریاست، ادارے اور عوام سیسہ پلائی دیوار بن کر منہ توڑ جواب  دینے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ مؤثر انداز میں منفی پروپیگنڈہ کا رد بھی کر رہے ہیں۔

            پاکستان میں قانون سازی بھی قرآن و حدیث کے تحت مروجہ نظام کے مطابق ہوتی ہے چاہے معاملہ معیشت سے ہو یا معاشرت سے۔ دین اسلام کو ہر طور سے ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ اسلام سے مخلص اور اس کے حقیقی پیروکار دین کے فروغ کی خاطر مصروف عمل ہو سکتے ہیں نہ کہ اسلام کو بدنام کرنے والی ابلیسی سوچ کے چیلے۔ اور اسلام کے اصل خدمت گاروں کی تضحیک و توہین اور دشنام طرازی محض بہکاوہ، جھوٹ، فساد انگیزی اور ابلیسی قبیح منصوبہ کی تعبیر کرنے کی نہایت غلیظ اور ناکام کوشش ہے۔

            انہی خطوط پہ چلتے ہوئے پاکستان کی باشعور و غیور مسلم عوام اور اداروں کو تاتاریوں سے تشبیہہ دینا تاریک ظالمان (تحریک طالبان) کی جہالت سے رغبت، پراگندہ دماغ میں موجود شیطان کی پیروی ہے جسے قرآن نے کھلا دشمن قرار دیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے نام لیوا نفوس کو بدنام کرنا اور جہالت کے دور سے نہایت بے شرمی سے ملانا خود ایک بیمار اور بدنما ذہنیت کا واضح ثبوت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح ایک مصلح رہنما تھے جنہوں نے اپنی تحقیق اور اجتہاد کی بنا پہ فرسودہ نظام اور روایات کو ختم کرنے کی سعی کی اور اک نئی سوچ دی تاکہ بہترین معاشرت کا جنم لے اور قرونِ اولیٰ کی بحالی جدید خطوط پہ استوار کی جا سکے۔ اب ان کی تحقیق اور فتاویٰ کو دہشتگردی کی لعنت کا تمغہ حاصل کرنے والے بھیانک چہرے نہایت علمی بددیانتی اور اپنے مذموم مقاصد کو پھیلانے کیلئے سیاق و سباق کو توڑ مروڑ کے پیش کر رہے ہیں جو اس شریف النفس انسان کی زندگی پہ بہتان تراشی اور گمراہ تصور ہے۔ وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے تو اسی اصول پر کیا کوئی ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ حجاز مقدس جو وطن اس وقت بھی تھا اس سے محبت کو کفر قرار دیا جائے یہ فساد فی الارض کی واضح نشانی ہے اور اسی طرح سے حب الوطنی کو ارتداد گرداننا سنگین الزام اور شہادت توحید و رسالت کو ذک پہنچانا ہے جب کوئی انفرادی اور اجتماعی سطح پہ اسلام کے منافی کوئی کام یا سوچ نہیں پنپ رہی تو مرتد اور شرک کا الزام لگانا فتنہ پروری ہی ہے اسی طرح سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج سراسر امن و سلامتی کے لیے اپنے فرائض منصبی انجام دیتی ہے جس کی واضح مثال دنیا میں جنگ زدہ مشکل علاقوں میں امن و عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلح افواج کا بار بار انتخاب کرنا ہے اور اپنی پیشہ وارانہ خدمات اور اخلاق سے لوگوں کے دل جیتنا ہے اور ان علاقوں کے مکین آج پاکستان کی فوج کو نہایت عمدہ طریقے سے یاد کرتے ہیں تو سوچیے کیا فتنہ گروں کو ایسے یاد کیا جا سکتا ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ اسی طرح سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج کو خانہ کعبہ حرم شریف کی دعوت پہ بھی معمور کیا گیا جو کسی بڑی سے بڑی سعادت سے کم اعزاز نہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کو ایک جگہ لانے کے لیے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان نے سرتوڑ کوششیں کیں اسلامی ممالک کی تنظیم میں پاکستان نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا اس کے علاوہ عرب اسرائیل جنگ میں باقاعدہ خصوصی تعاون کیا اور دوسرے اسلامی ممالک کی فوج کو پیشہ وارانہ تربیت میں پاکستان پیش پیش رہا یہ خام خیالی نہیں تاریخ کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔پاکستان کی افواج پہ ہرزہ سرائی اس بات کی دلیل ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے پاکستان کی خدمات اور کامیابی کسی سے ہضم نہیںہو پا رہی اور سٹھیائے اور بوکھلائے شکستہ خورد عناصر کی چیخیں ہیں جو خود کسی بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ بن کے ملک عزیز اور اسلام کو تباہ کرنے کی سوچ پہ گامزن ہیں یعنی چور مچائے شور، چور نے اپنی داڑھی میں تنکا دیکھ لیا اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج کو زمینی اور نظریاتی حدود کی خاطر دفاع کا مکمل اختیار سونپا گیا ہے جو عین اسلامی ریاست کے اصول کے مطابق ہے اسی اعتبار و اعتماد کے بھروسے پاک فوج کئی پلیدوں کا قلع قمع کر چکی ہے۔ کھوکھلی دلیل،الزام تراشیاں خود کو مسلمان کہنے والے جو کہ اسلام کی کسی شرط پہ بھی پورا نہیں اترتے، مسلمان ملک کی انتظامیہ اور عوام کو کفر کے دائرے میں شامل کرنا بھونڈا مذاق اور جہالت کی انتہا ہے۔

            انفرادی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کو برقرار رکھنے کی خاطر ریاست یقینی بناتی ہے یہی چیز جذبہ حُب الوطنی پیدا کرتی ہے اور سر زمین وطن سے وفاداری سکھاتی ہے اس کے دفاع کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا اس اصول کے مدنظر ریاست اپنی پاک افواج کو دھرتی کو محفوظ کرنے کے اختیارات دیتی ہے جن کو مکمل طور پہ جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔

            دہشت گرد تنظیموں نے مختلف نام رکھ کے اسلام کے نام پہ نام نہاد جہاد جو کہ درحقیقت فساد ہے، بلا تمیز، تفریق اور لحاظ گھروں کے گھر اجاڑے، مساجد، خانقاہوں، گھروں، سکولوں، مزاروں اور بازاروں کو نہتے معصوم انسانوں کے خون کی ہولی سے لہو لہان کیا وہ کیسی اسلامی ریاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ ریاستی اداروں نے بے شمار قربانیاں دے کے ان دشمنوں کے ہر دور میں دانت کھٹے کیے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دہشتگردوں نے قتل و غارتگری، منشیات، اغواء دیگر حرام کردہ گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کیا غرضیکہ ہر ممکنہ قسم کے جرم کیا اور ملک عزیز کو دنیا بھر میں بدنام اور اکیلا کرنے کی کوششیں کیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے جو گھٹیا انور سر انجام دیے اس کے بعد یہ اسلام اور پاکستان کے کیسے خیر خواہ ثابت ہو سکتے ہیں جن کہ منہ انسانی لہو آج ٹپکتا نظر آتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں قرار دیا اور رہی بات اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پاک افواج کو کافر اور مرتد کہنا اور ان پہ الزام لگانا کہ وہ خلاف شریعت امور سر انجام دیتے ہیں یہ فارغ العقل، باطل عقائد اور سازشی نظریات کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں اور تمغہ خباثت و ذلالت کی تشہیر ہی ہے۔ جس کا زمینی حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں۔ پاکستان میں بادشاہت کا نظام نہیں لوگ جمہوریت کے مراحل طے کر کے مسند نشین ہوتے ہیں اور عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں یہ ملک فرعون، نمرود اور شداد کی آماجگاہ نہیں۔

            مکاری دہشتگردوں، منافقوں، خارجیوں اور کفریہ سوچ کے شیطانوں کا شیوہ اور ہتھیار ہے جس میں یہ درندہ صفت گروہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور انسانیت کی توہین کرتے نظر آتے ہیں۔ مرتد تو یہ لوگ خود ٹھہرتے ہیں جنہوں نے اسلام سے مکمل رو گردانی کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں یہ اللہ اور اس بندوں کو دکھ دینے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔  اسی طرح جو اللہ کی راہ اس کی مخلوق کی حفاظت کرنے کی خاطر اپنی جان تک نچھاور کر دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو شہید کا فرجہ پا کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پہ پہنچتے ہیں اور جو گھناؤنے گروہ اللہ کی مخلوق کو ایذارسانی، پریشانی، ناحق خون کے مرتکب ہوتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسواء ہو کر واصل جہنم ہوتے ہیں۔ یہی بنیادی فرق قرآن میں اللہ کے گروہ اور حزب الشیطان کے درمیان بتایا گیا ہے اب آپ خود سوچئے کہ کون کس صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔

اسلام میں حاکم وقت سے متعلق رعایا کو جو تاکید کی گئی ہے ان میں چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔ نیکی کے کاموں میں حاکم وقت کی اطاعت کریں (صحیح بخآری: 7144)، حاکم وقت اگر کسی معاملے میں ظلم کرے تو اس کے ظلم پہ صبر سے کام لیں (صحیح بخآری: 7054)، حاکم وقت کو برا بھلا کہنے سے اور اس کے لیے بغض رکھنے سے اجتناب کریں (کتاب السنہ الالبانی:1015) حاکم وقت کے لیے ہر حال میں خیر خواہی و اصلاح کا جذبہ رکھیں (صحیح مسلم:196)۔ یہ احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو نظام اور قیادت قرآن و سنہ کی روشنی میں عوام الناس کی بھلائی میں مصروف ہوں ان کی اطاعت کی جائے اور باغیانہ مزاج کو کبھی نہ اپنایا جائے۔ جبکہ دوسری جانب جنہیں نہ عوام نے چنا ہو نہ اپنا نمائندہ سمجھتی ہو نہ ریاست ایسے عناصر کو مسلح مہم جوئی کی اجازت دیتی ہو وہ کیسے قیادت اور نمائندگی کا دم بھر کر مسلمانوں کو کافر قرار دے سکتے ہیں۔

            اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین قرآن وسنت کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کے تصور کو بیان کیا گیا ہے اور قانون سازی کے طریقے کو بتایا گیا ہے مجلس شوریٰ کے قیام کے مراحل سے روشناس کرایا گیا ہے اور بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ شریعت کے منافی کوئی نظام یا ترتیب نہیں بنائی جاسکتی لہذا اس کے خلاف کفر کا لفظ نظریہ عام کرنا خود ایک صریحا کفر ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خادمین حرمین شریفین شاہ فیصل بن عبد العزیز نے اسلام کا قلعہ کہا ہے جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسلام کے فروغ کے لیے پاکستان غیر متزلزل جذبہ کے ساتھ امت مسلمہ کی ہر پلیٹ فارم پہ نمائندگی کرتا نظر آتا ہے اور جسے ہر سطح پہ سراہا جاتا ہے۔  دوسری طرف فسادیوں کی تباہ کاریوں اور تخریب کاری کی بدولت پاکستان کی تمام عوام خصوصاً قبائل نے نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ ریاست پاکستان پہ اپنا اعتماد بڑھاتے ہوئے ان دہشتگردوں کے خلاف متحد ہو کر سامنا کیا بھی ہے اور کر بھی رہے ہیں۔

            دیکھا جائے تو ان ملحدین، زندیقوں اور باطل عقیدہ گروہوں نے خود ساختہ نام نہاد شریعت نہیں شیطانیت کو وضع کرنے کوشش کی ہے جو ابلیسی خطوط پر استوار ہے جس کی بدولت یہ سادہ لوح اور معصوم انسانوں کو ورغلانے اور اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ ان کا لمحہ لمحہ، پل پل اور ہمہ وقت اس کے بر عکس اور تخریب کاری کہ عملی جامہ پہنانے میں شامل ہے۔ پاکستان میں تمام تر فیصلے آئین میں موجود اسلامی دفعات کے تناظر میں لیے جاتے ہیں اس حوالے سے پاکستان کا مزہبی طبقہ بھی اس کی مکمل تائید کرتا ہے اور وقت ک ساتھ ساتھ اجتہاد کے نتیجے میں وجود میں آنے والے فیصلوں کو دیکھا پرکھا جاتا ہے انہوں نے کبھی ریاست یا ریاستی اداروں کو کفریہ نظام یہ مرتد کہا اور اگر یہ حقائق کو مانتے اور ریاست کی حمایت و تعاون کرتے ہیں اور جہالت کو رد کرتے ہیں تو فسادیوں کا جلنا مرنا تو بنتا ہے جو علمائے جمہور کو نظر انداز کر کے علمائے سوء کی پیروی کرتے ہیں۔ لہذا علماء کرام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تائید اور حمایت اس بات کو مزید تقویت پہنچاتی ہے کہ ملک خداداد میں اللہ اور اس کے آخری رسول جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جا سکے جبکہ تاریک ظالمان نہ صرف حکم عدولی کرتے بلکہ کھلی جنگ اور بغاوت کے مرتکب ہوتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام محمدیت کے قائل اور پیروکار ہیں جو کسی بھی چنگیزیت، تارتاریت یا ظالمان کو مکمل مسترد کرتے اور لعنت بھیجتے نظر آتے ہیں۔

            اس سے بڑی غلیظ اور درندہ صفت سوچ کیا ہو گی کہ شہدائے پاکستان اور حقیقی اسلام کے نام پہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو یہ نجس دماغ،  انتہائی پستی کی طرف راغب اور انسانیت سوز مظالم کا بازار گرم کرنے والے خارجی برا بھلا کہنے کی جرات کریں۔ یہ ابو جہل کے چیلے بہیمانہ قتل اور لوٹ مار سے بھری سوچ سے لوگوں کو اکساتے اور وطن عزیز میں فتنہ پرور معاملات کرتے اور اپنی اندھی تقلید کو منصفانہ گردانتے جو کہ اسلام تو دور کی بات انسانیت سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔ پاکستان میں موجود ہر مکتبہ فکر کی مذہبی جماعتیں لوگوں کو نیکی کی جانب رغبت دلاتی ہیں اور فلاح انسانیت کے لیے عوام الناس کو فعال کرتے ہیں سیاست سے لے کر رفاعہ عامہ تک تمام امور دلجمعی اور سماجی حمایت سے کیے جاتے ہیں جبکہ فسادی صرف قتل وغارت کے لیے مختلف حربے آزماتے ہوئے اسلام اور ریاست کا نام خراب کرنے کے در پہ معمور ہیں۔ بڑے سے بڑے مدارس سے نامی گرامی علماء کرام کا جنم لینا اس بات کا شاہد ہے کہ حقیقی اسلام کی خدمات کرنے والے مسلسل اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور معاشرے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

            بقول اقبال کے

            خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے

                        میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

            جو علمائے کرام اسلام اور پاکستان کے لیے مثبت کردار ادا کرتے ہیں ان کی کردار کشی حرام کے مال پہ پلنے والے کرنے لگیں اور ان کو انکی اوقات جو کہ ہے ہی نہیں بتانا ہوگی کہ علمائے حق کو بدنام کرنا دراصل شیطانی چیلوں کا بے دلیل ہونا ہی ہے جو صرف اور صرف کردار کشی کرتے ہیں جب دلیل نہ ہو تو ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو کر وہ ایسی توجیہات و توضیحات گھڑتے ہیں جن سے سوائے بوکھلاہٹ کے اور کچھ عیاں نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علمائے کرام نے دنیائے اسلام میں اسلام کو پھیلانے اور لوگوں کو اس جانب راغب کرنے کیلئے جو اقدامات اور خدمات پہ اک زمانہ انکی کوششوں کا معترف ہے بلکہ اس پہ عمل پیرا ہو کر کامیابی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

            واضح رہے کہ حرام و حلال میں تغیر و تبدیلی شریعت اسلامی میں صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی بات پہ ہر مسلمان قائل اور سرنگوں ہے اور یہی طرزِ فکر وعمل پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان لے کے چلتے ہیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیں یہ محض گمراہ کن موقف ہے کہ نعوذباللہ پاکستان کی عوام اور انتظامیہ حدوداللہ کو توڑتے ہیں۔ نہ ہی ایسی حرکت کوئی ذی شعور کر سکتا ہے۔ اسی طرح  آئین پاکستان کی روشنی میں قائم کردہ مجلس شوریٰ کو دہشتگردوں کی ابلیسی مجلس شوریٰ غلط ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں حال میں منعقدہ عام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا اور عوام الناس نے اس نظام کو ہی درست جانتے ہوئے ووٹ اپنا شرعی حق ادا کیا لہذا اس نظام کو برا کہنا ناہنجار، احمق اور ذلیل و رسواء لوگوں کا شریف النفس لوگوں کی توہین کرنا ہے جو کہ کسی صورت برداشت نہیں ہوسکتا۔ شیوخ الرزائل کی جانب سے کی جانے والی ملک پاکستان کے حوالے سے کردار کشی خارجیت کا واضح ثبوت ہے اس میں عام مسلمانوں کی توہین بھی شامل ہے جو فسادیوں سے بہتر مسلمان اور باعمل پیرو کار ہیں جنہوں نے ملک او اسلام کا ہر لمحہ نام روشن کیا۔

            جمہوری اقدار کی خوبی احتساب کے نظام کو تقویت دینا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اور انتظامیہ اپنے ہر کام کے حوالے سے عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور باقاعدہ طور پہ ہر دفعہ مینڈیٹ لینے کی غرض سے انہیں عوام کے روبرو آنا ہوتا ہے اور اس صورت میں مطلق العنان حیثیت کسی کو بھی حاصل نہیں ہو تی اور تمام فیصلے عوام کی نمائندگی کرنے والے عوام کی خواہشات کو قرآن و سنت کی روشنی میں تکمیل تک پہنچانے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

            شیطانی خطوط کے تابع تاریک ظالمان بنیادی طور پہ انفرادی واجتماعی سطح پر پاکستان سے اور اسلام سے مخلص لوگوں پہ شیطان ضربِ کاری میں مصروف ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام اور علماء کرام ان کے انسانیت سوز حربوں اور جاہلانہ پن کی سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں انہی پراگندہ سوچ کے ساتھ وہ حفاظ کرام، علمائے کرام، پاکستانی عوام پہ دشنام طرازی کرتے ہیں اور خود کو منافقت اور خارجیت کے منصب پر بدستور پر فائز ہوتے نظر آتے ہیں۔

            پس ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردوں اور انکے علمائے کا پراگندہ منفی پروپیگنڈہ پاکستان کی ریاست کو کفری نظام سے منسلک کرنا ہے نہ صرف بے دلیل بلکہ بددیانتی جھوٹ اور باطل عقائد کا شاخسانہ ہے اور اس حوالے سے نام نہاد فسادی اور دیگر سوچ ان کے پر ہی ماری جاسکتی ہے تاکہ حقیقی مسلمانوں کو ان کے گھٹیا پن سے مکمل آگاہی دلا کر ان کے خلاف تمام معاملات کا سدباب کیا جا سکے آئین پاکستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام حکمران اور ادارے وطن عزیز کی آئین جغرافیائی اور نظریاتی حدود کا دفاع کرنے میں یکجان ہیں اور مسلسل شیطانی حربوں کا رد کرتے ہوئے ملک کو محفوظ بناتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ!