انتخابات کسی بھی ملک میں جمہوریت کے تسلسل و فروغ اور سیاسی  استحکام  کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ برصغیرپاک و ہند کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل بھی مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر انتخابات جیسے جمہوری عوامل کا حصہ رہے ہیں۔ 1937 کے انتخابات میں شکست کے باوجود  دلبرداشتہ ہو ئے  بغیرجمہوری عمل پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمانوں نے 1945 کے انتخابات میں حصہ لیا جو بعد ازاں پاکستان کے وجود کیلئے ایک اہم سَنگِ میل ثابت ہوا۔ اگر اس وقت مسلمان انتخابات کو غیر شرعی طریقہ کار مان کر ان میں حصہ نہ لیتے تو آج اسلام کے نام پر یہ ریاست کبھی بھی وجود میں نہ آتی۔ اسی طرح 8 فروری 2024 پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایک اہم دن تھا ، جب کروڑوں کی تعداد میں شہری خصوصاً نوجوان طبقے نے جمہوریت پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کیلئے جوش و خروش سے پولنگ سٹیشنز کا رُخ کیا ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہوں نے دہشتگرد عناصر کی انتخابات کے خلاف فتنہ بازی اور شرانگیز  پراپیگنڈہ  کو مسترد کرتے ہوئے جمہوری عوامل پر اعتماد کو ووٹ کی طاقت سے جلا بخشی۔

انتخابات کے انعقاد سے قبل دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے عوام کو الیکشن کا بائیکاٹ پر قائل کرنے کیلئے پراپیگنڈہ شروع کیا گیا جس میں  پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات کو اسلام کے خلاف ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستانی  عوام کی الیکشن میں بھرپور شرکت سے ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان دہشتگرد ٹولوں نے اس انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے  کئی دہشتگرادنہ کاروائیاں کیں، جس میں سے  تقریباً 51 کے قریب حملے تو صرف پولنگ کے دن ہوئے۔  اسکے باوجود  کراچی سے لے کر خیبر تک اور پشین سے لے کر باجوڑ تک عوام کی ایک بڑی تعداد نے انتخابی عمل میں شرکت کر کے دہشتگردوں کے مذموم اور ناپاک عزائم کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔

ان انتخابات کا سہرا پاکستان کی غیور وبہادر عوام کے سر ہے، جنہوں نے  دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خدشات کے باوجود پولنگ کے دن اپنا جمہوری فرض سرانجام دیا  ۔ عوام کا جمہوریت پر اعتماد دیکھ کر یہ دہشگرد عناصر بوکھلا گئے اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم اور نہتے شہریوں پر حملہ آور ہوئے۔ نتیجتاً شہریوں کے جان و مال کی دفاع کی خاطر 10 اہلکاروں نےملک کے مختلف حصوں میں جامِ شہادت نوش کیا۔

اسی طرح یہ  شر  پسند عناصر ملکی انتخابات کا حصہ بننے والی مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں مسلح جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔ حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ مذہبی جماعتوں کی انتخابی عمل میں  مسلسل شرکت ، ملک میں رائج  جمہوری نظام اور اسکی اسلام سے مطابقت پر اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ نام نہاد جہادی تنظیمیں تصور جہاد کی غلط انداز میں توضیح و تشریح کرتے ہوئے نہ جانے کیوں یہ بھول جاتی ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ اسلام میں  جہاد ایک مسلسل عمل ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی روسے اس کی مختلف اقسام ہیں جو کہ جہاد بالعلم ، جہاد بالمال،  جہاد بالعمل، جہادبالنفس اور جہاد بالقتال ہیں۔ انتہا پسند تنظیمیں اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے جہاد کی باقی اقسام کی نفی کر کے صرف جہاد بالقتال کا سہارا لیتے ہیں جو کہ اسلام میں بطور آخری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہےـ اسلام میں سب سے افضل جہاد ” جہاد بالنفس” کو قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوىؐ ہے:

عَنْ فُضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ.

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔

اسی طرح اسلام میں جہاں بالنفس کے ساتھ ساتھ جہاد بالقلم کی بھی ترغیب دی گئی ہے.  نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:

قال رسول اللہ ﷺ:يوزَنُ مِدادُ العُلَماءِ و دَمُ الشُّهَداءِ، يَرجَحُ مِدادُ العُلَماءِ عَلى دَمِ الشُّهَداءِ

حضرت پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا اور علماء کے قلم کی سیاہی کا وزن شہداء کے خون سے زیادہ ہوگا۔

انتہا پسند تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کی کم علمی کا فائده اٹھاتے ہوئے صرف جہاد بالقتال کا پر چار کرتے ہیں، جو کہ انکی بدنیتی اور ناپاک عزائم کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے دین کو استعمال کرتے ہیں۔ طاقت کا استعمال صرف جہاد بالقتال میں جائز ہے۔ یہ جہاد میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب غیرمسلم دشمن سے مسلمانوں کی جان مال یا  ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں غیر مسلموں کے خلاف تب ہی جہاد کیا جائے گا جب ہماری اسلامى ریاست کے استحکام اور سالمیت کو  شدید خطرہ لاحق ہو۔  اس سے پہلے نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے متعدد مثالیں ہیں کہ جس میں رحمت اللعالمین ﷺنے جنگ کے بدلےمیں ہمیشہ مصالحت و مفاہمت اور صلح جوئی کو ترجیح دی۔ اسکی اعلیٰ مثال فتح مکہ ہے کہ جب آپﷺ نے اپنے دشمنوں کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کیا۔ کیونکہ سورۃ انبیاء  میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ (اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے)۔ اسی طرح میثاق مدینہ کے تحت آپﷺ نے بین المذاھب ہم آہنگی کو قائم کرنے اور ایک متحده ریاست بنانے کیلئے  مختلف گروہوں سے معاہدہ کیا۔ اسی رحمت اللعالمينﷺ کے امتی ہونے کے ناطے کیسے ایک گروه اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو کافر قرار دے کر انکے خلاف مسلح جہاد کی ترغیب دے سکتا ہے؟ یہ یقیناً کسی اور  شرپسند عناصر کی ایماء پر ملک میں تخریب کاری کیلئے متحرک  ہیں ۔ اسلام میں جہاد کسی صورت اپنے کلمہ گو مسلمان بھائیوں کے خلاف جائز نہیں خواه وه سیکیورٹی ادارے ہوں یا عام عوام۔

الغرض پاکستانی قوم  انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال پر مبارکباد کی مستحق ہے  کیونکہ پاکستانی قوم نے دہشتگرد عناصر کے پراپیگنڈہ پر کان نہ دهر کر کے ملک میں جمہوریت کے تسلسل میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور ملک میں امن کی فضا قائم  کر کے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ان  دشمن عناصر کے خلاف یکجا ہے اور انکی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنے گی۔

پاکستان زنده باد، جمہوریت پائندہ باد!