دہشت گرد تنظیمیں جو بلا امتیاز معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر معاشرے کو تباہ کرنے پر تُلی ہوں، وہ کبھی اخلاقيات پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتیں اور ان کے اقدامات کو کبھی بھی کسی بھی طور پر جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے ‘مبینہ’ بیان کردہ مقاصد […]
دہشت گرد تنظیمیں جو بلا امتیاز معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر معاشرے کو تباہ کرنے پر تُلی ہوں، وہ کبھی اخلاقيات پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتیں اور ان کے اقدامات کو کبھی بھی کسی بھی طور پر جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے ‘مبینہ’ بیان کردہ مقاصد کے حصول کیلئے تباہ کن طریقوں اور اقدامات کے انتخاب کا نفاذِ شریعت اور اس پر عمل درآمد کرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس سےسوالات کا ایک سلسلہ جنم لیتا ہے: عقل اور سمجھ بوجھ رکھنے والےلوگ یا گروه اس طرح کے بے معنی اور تباہ کُن طریقہ کار کیوں اختیار کریں گے؟ وحشیانہ اور سفاکیت پر مبنی ان قبیح افعال سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟ اگر اختیار کیے گئے ذرائع نہ تو جائز ثابت ہوتے ہوں اور نہ ہی مطلوبہ اہداف سے مربوط ہوں تو پھر ایسی خطرناک اور تخریب کار قوتیں کیسے اپنے مذموم مقاصد کیلئے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہوئے ان کو اپنے ساتھ شامل کرکے گمراہی کی راه پر چلنے کیلئے مائل کرتی ہیں ؟ ایسی تخریب کار قوتوں کو پسپا کرنے اور ختم کرنے کے لیے متاثرہ اور محصور معاشرے کو کیا کرنا چاہیے؟
ان متعلقہ سوالات کے جوابات کے لیے، ہم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مثال سامنے رکھتے ہیں ۔ اس دہشتگرد تنظیم کے بیان کردہ مقاصد مشکوک، متصادم اور بڑی حد تک متضاد ہیں۔ ٹی ٹی پی کا مرکزی دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں شرعی قوانین کو نافذ کرنا چاہتی ہے، جب کہ پاکستان جیسا ملک جس نے خود کوآئینی طور پر اسلامی جمہوریہ قرار دیا ہے، اس میں شریعت کے نفاذ کی باتیں کھلا تضاد ہیں۔ ایک گروہ کے لیے ‘اسلامی جمہوریہ’ کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا جب کہ وہ متعدد غیر اسلامی ممالک اور انکےحواریوں سے گھرا ہوا ہو، غیر معقول اور مضحکہ خیز ہے۔ مزید برآں، ٹی ٹی پی کی شریعت کی تنگ نظراور گمراہ کن تشریح نہ صرف عام تاثر کو مسترد کرتی ہے بلکہ موجوده وقت کے معروف مذہبی اسکالرز اور دانشوروں کے نظریات اور تشریحات سے بھی متصادم ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم ٹی ٹی پی کی جھوٹی بنیاد کو ان کے بیان کردہ بنیادی مقصد کے طور پر قبول کر لیں، تب بھی ان کے مبینہ مطلوبہ مقاصد اور اس کے حصول کے لیے استعمال شده ذرائع کے درمیان کوئی تعلق یا جواز قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔
" ٹی ٹی پی کا مرکزی دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں شرعی قوانین کو نافذ کرنا چاہتا ہے، جب کہ پاکستان جیسا ملک جس نے خود کو آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ قرار دیا ہے، اس میں شریعت کے نفاذ کی باتیں کھلا تضاد ہیں۔”
ٹی ٹی پی معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شریعت کے بارے میں اپنی من گھڑت تفہیم مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بنیادی طریقہ کار میں خودکش اور آئی ای ڈی دھماکے شامل ہیں۔شریعت کی کوئی بھی تشریح کسی بھی رُو سے کی جائے تو اس کے مطابق معصوم اور بےگناه شہریوں کو نشانہ بنانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ خودکش حملے اور آئی ای ڈی دھماکے جو کہ عوام اور ماحول کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاتے ہیں، شریعت میں ان کی سختی سے ممانعت ہے اور ایسا کرنے والے ان خوارج اور فتنہ پردازوں کو فساد فی الارض کے دائرے میں لا کر کڑی سزاؤں کی وعید سنائی گئی ہے۔
اگر ٹی ٹی پی کے اختیار کردہ طریقوں اور ہتھکنڈوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے تو پھر ان کے مقاصد کیسے جائز ہو سکتے ہیں؟ جواب واضح ہے کہ ان کے غیر اسلامی اور غیرانسانی اعمال کی اسلام اور مہذب معاشروں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ معاشرہ بنانا نہیں چاہتے بلکہ اس میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ۔ یہ اسلام یا شریعت کے محافظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ درحقیقت اس کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ان کا مقصد وہ نہیں جسکے یہ دعویدار ہیں ، بلکہ سازش ، انتہا پسندی اور فساد ہے جسکے ذریعے یہ گروه پوری دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کو بدنام کرکےاور انہیں دہشتگردی سے منسوب کرکے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
اگر ٹی ٹی پی کے اہداف کا انتخاب اور وہ جن طریقوں اور ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں، ان کی شریعت میں واضح طور پر کوئی جگہ نہیں ہے، تو یہ گروہ اپنے آپ کو کیسے برقرار رکھ پا رہا ہے؟ یہ کیسے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور اپنی پرتشدد اور تباہ کن مہمات کو جاری رکھتا ہے؟ اس دہشتگرد گروه کے غیر منصفانہ طریقہ کار اور اس کے انتہائی مشکوک اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد کے پیش نظر، یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہے کہ یہ نہ تو ٹی ٹی پی کا نظریہ اور نہ ہی اسکاطریقہ کار ہے جو اسکی دو دہائیوں پر محیط موجودگی کا ضامن ہے بلکہ اسکا اصل سبب انکی مؤثر پیغام رسانی اور رابطہ مہمات ہیں جو کہ مایوس اور متاثر ه نوجوانوں کی کمزوری کا فائده اٹھاتے ہیں اور جسکی بدولت یہ نوجوان انکے بوگس بیانیے کے پیچھے چھپی گھناؤنی حقیقت سے واقف نہیں ہوپاتے۔ ٹی ٹی پی کی موجودگی کی ایک اور اہم وجہ اس کے غیر ملکی عناصر سے مالی اعانت اور ذرائع امداد ہیں۔
"اس دہشتگرد گروه کے غیر منصفانہ طریقہ کار اور اس کے انتہائی مشکوک اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد کے پیش نظر، یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہے کہ یہ نہ تو ٹی ٹی پی کا نظریہ اور نہ ہی اسکاطریقہ کار ہے جو اسکی دو دہائیوں پر محیط موجودگی کا ضامن ہے بلکہ اسکا اصل سبب انکی مؤثر پیغام رسانی اور رابطہ مہمات ہیں جو کہ مایوس اور متاثر ه نوجوانوں کی کمزوری کا فائده اٹھاتے ہیں اور جسکی بدولت یہ نوجوان انکے بوگس بیانیے کے پیچھے چھپی گھناؤنی حقیقت سے واقف نہیں ہوپاتے۔”
لُب لباب یہ ہے کہ ‘ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ،دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا’ کے مصداق ٹی ٹی پی،غیر ملکی ریاستوں اور ملک دشمن اداروں کی ایک آلہ کار اور کٹھ پُتلی ہے جو اسلام اور پاکستان دونوں کو اندرونی اور بیرونی طور پر غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والے مذہبِ اسلام اور پاکستان جیسی ایٹمی طاقت سے ٹکر کا مقابلہ کرنا انکے بس کی بات نہیں، اس لیے اسلام اور پاکستان کے دشمن اس ملک کو اندرونی خلفشار اور دہشتگردی کے ذریعے کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اور اس مقصد کیلئے ٹی ٹی پی اس ایجنڈے کو بھرپور طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔ ایک طرف، یہ شریعت کے نام پر بے گناہ لوگوں پر حملے کرتی ہے، جس سے پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس کی پُرتشدد مہم پاکستان کے امن و سکون کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
الغرض ،اسلام اور پاکستان دونوں کے دشمن ہونے کے ناطے ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی منافقت کو بے نقاب کرنا ،جو مذہب کے نام پر اصلاح کی آڑ میں فساد پھیلا رہے ہیں، شہریوں کا مذہبی اور سماجی فریضہ ہے۔ ایسے گروہوں کے جھوٹے اور تخریب کارانہ بیانیے کی حقیقت کو عیاں کرنا اور ان کی بیخ کنی کرنا اشد ضروری ہے جو اپنے مکروہ اور گھناؤنے سہولتکاروں کی خاطر نوجوان ذہنوں کا استحصال کرنا چاہتے ہیں اور سادہ لوح، بھولے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنساکر لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں،، قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں اور نفرتیں اور فسادپھیلاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اسلام مخالف دہشتگرد ٹولہ ہے جسے بے نقاب کرکے اسکی حقیقت سامنے لانا ہماری اخلاقی ،سماجی اور شرعی ذمّہ داری ہے۔
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک