ملالہ یوسفزئی: ایک بچی کی تعلیم کے لیے مثالی جدوجہد

نفرتوں کے آندھیاں تیز ہیں اور میں امیدوں کا ایک چراغ جلائے رکھنے کی ضد پرہوں

یہ الفاظ 12 جولائی 1997 کو سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہونے والی ایک بہادر لڑکی کے ہیں۔ جسے دنیا "ملالہ"کے نام سے جانتی ہے۔ اس لڑکی نے ایسے وقت میں تعلیم کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی، جب خوف و دہشت کی بنا پر لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوتے نظر آ رہے تھے۔ ایسے خطرناک وقت میں ملالہ نہ صرف اپنے علاقے کی لڑکیوں بلکہ پوری دنیا کے لیے امید کی علامت بن کر سامنے آئی۔ اس نے دہشتگردی کا مقابلہ تعلیم کی جدوجہد جاری رکھ کر کیا اور دہشتگردوں کے مکروہ عزائم کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرنے میں عملی کردار ادا کیا۔

یہ بات ہے 2008 کی، جب سوات سمیت خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقے دہشتگردی کی گرفت میں تھے۔ طالبان نے ہر طرف ظلم و جبر کا طوفان بھرپا کر رکھا تھا۔یہ وہی وقت تھا جب طالبان نے شریعت کے نام پر خواتین کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ایسے میں کوئ تھا جواپنے قلم کےذریعے سے دنیا کے سامنے طالبان کا مکروہ چہرہ بے نقعاب کرنے میں مصروف تھا ۔ یہ کوئ اور نہیں بلکہ 11 سال کی ملالہ تھی جو بی بی سی اردو میں گل مکئی کے نام سے اپنے لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچا رہی تھی۔

ملالہ نے طالبان کے غیر اسلامی اور غیر قانونی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں لکھنا شروع کیا اور اپنے بلاگ کے ذریعے طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں لڑکیوں کو درپیش تعلیمی مشکلات کو بیان کیا۔ ملالہ کی ان عوام دوست سرگرمیوں کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر پذیرائی ملی اور اس طرح ملالہ کی پہچان دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں بڑھ گئی . قومی اور بین الاقوامی مقبولیت کے بعد ملالہ نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا اور مختلف عوامی تقریبات میں تقاریر کے ذریعے عوام میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق شعور اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ ملالہ کی یہی سرگرمیاں طالبان کے مکرو عزائم کی راہ میں ایک بہت بڑا چیلنج بن گئیں۔

جہاں ایک جانب ملالہ کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا، وہیں اسے دوسری جانب سے طالبان کی طرف سے سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے پیغامات بھی ملالہ کو ملنے لگے تھے۔ نو اکتوبر 2012 کو، ملالہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ خوشحال پبلک سکول سے واپس گھر لوٹ رہی تھی کہ سکول سے ایک کلومیٹر دور ان کی گاڑی رکوا دی گئی۔ ملالہ کا نام پوچھا گیا اور دہشت گردوں کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی ان کی گردن کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ انہیں علاج کے لیے برطانیہ کے شہر برمنگھم لے جایا گیا جہاں پہ ملالہ کے دماغ کے دو آپریشن کیے گئے اور ان کے سر پر ٹائٹینیم کی پلیٹ لگا دی گئی۔ آخر کار دعائوں اور دوائوں کے اثرسے پاکستان کی بہادر بیٹی کو  نئی زندگی ملی۔

قاتلانہ حملے کے باوجود ملالہ کا حوصلہ پس نہ ہو سکا اور اس نے صحت یابی کے بعد دہشت گردی کے خلاف نہ صرف اپنی جدوجہد کو جاری رکھا بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے 2013 میں ملالہ فنڈ نامی تنظیم کی بنیاد بھی رکھی اس تنظیم کا بنیادی مقصد دنیا میں تعلیم کی فراہمی کو آسان بنانا اور تعلیم کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دینا ہے یہ تنظیم پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا کے نو مختلف ممالک میں فعال ہے اور اب تک تعلیم کے شعبے میں 47 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی ہے2014 کو ملالہ کی انہی اسے بے مثال جدوجہد کے صلے میں نوبل پیس اوارڈ سے نوازا گیا جو نہ صرف ملالہ بلکہ تمام پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے

ملالہ کی کہانی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سب سے بڑی طاقت علم اور قلم کی طاقت ہے یہی وجہ ہے کہ ملالہ نے اپنے ساتھ پیش آئے ظلم کا بدلہ بندوق کے بجائے علم کی طاقت سے لینے کا فیصلہ کیا کیوںکہ وہ اس بات سے با خوبی واقف ہے کہ جہالت کےاندھیروں(دہشتگردی) کا مقا بلہ صرف علم کی شمہ جلا کر اور نفرت کاجواب محبت سے دے کر ہی امن کویقینی بنا یا جا سکتا ہے۔ اسی لیے دہشت گرد تنظیمیں بالخصوص طالبان, تعلیم کے فروغ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں. لہذا ہم سب کو چاہیے کہ ہم بھی ملالہ کی طرح تعلیم کے فروغ کے لیے کوشیش کریں اور دنیا کو ایک محفوظ اوربہترجگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر یں۔