جنگی طرز تعمیر کا شاہکار: قلعہ روہتاس پاکستان کے صوبہ پنجاب کی سرسبز و شاداب پہاڑیوں میں واقع مغل فوجی فن تعمیر کاروہتاس قلعہ ایک شاندار نمونہ ہے۔ یہ تاریخی قلعہ، جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثےمیں شامل ہے، سلطنتوں اور جنگجوؤں کی کہانیوں کی بازگشت سناتا ہے جو کبھی اس کے میدان میں […]
جنگی طرز تعمیر کا شاہکار: قلعہ روہتاس
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی سرسبز و شاداب پہاڑیوں میں واقع مغل فوجی فن تعمیر کاروہتاس قلعہ ایک شاندار نمونہ ہے۔ یہ تاریخی قلعہ، جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثےمیں شامل ہے، سلطنتوں اور جنگجوؤں کی کہانیوں کی بازگشت سناتا ہے جو کبھی اس کے میدان میں گھومتے تھے۔ اپنی بلند و بالا دیواروں اور عظیم گیٹ ویز کے ساتھ، روہتاس قلعہ سیاحوں کو ماضی کی جھلک پیش کرتا ہے، جہاں ایک ناقابل فراموش تجربہ تخلیق کرنے کے لیے تاریخ اور افسانے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
تاریخ کے صفحات پلٹیے تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ برصغیر کے عظیم قلعوں میں شامل یہ واحد قلعہ ہے جس پر کبھی یلغار نہیں کی گئی، اس کے حصول کے لیے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی اور نہ کبھی اس کا محاصرہ ہوا۔ اس قلعے کی قدامت سے بہت سی روحانی داستانیں یا روایات لپٹی ملتی ہیں۔ مثلاً دیوہیکل پتھروں کو اس بلندی پر نصب ہونا بزرگوں کے روحانی کمالات میں سے خیال کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے ساتھ ساتھ بے شمار بزرگانِ دین نے روحانی قوتوں سے تعمیر کو ممکن بنایا تھا۔ ان روایات پر مقامی لوگ یوں بھی یقین کرتے ہیں کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود تھا (کچھ اب بھی موجود ہیں) جبکہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر دکھائی دیتے ہیں۔
فن تعمیر:
جب قلعہ تعمیر ہوا تو یہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا قلعہ تھا، تاہم یہ بات حیران کن تھی کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں، جن میں ساٹھ ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے۔ یہ قلعہ چونکہ دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا، اسی لیے شیر شاہ سوری کے بعد برسراقتدار آنے والوں نے بھی یہاں اپنے ٹھہرنے کے لیے کسی پرتعیش رہائش گاہ کا انتظام نہیں کیا۔ محلات نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔ جنگی حکمت عملی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قلعے کے کُل بارہ دروازے بنائے گئے،جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ہر دروازے کی تعمیر کا ایک مقصد تھا، جس کی وجہ سے ان کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اس کے صدر دروازے کا نام ہزار خوانی تھا۔ قلعے کا سب سے قابلِ دید ، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے، جس پر 68برج ، 184برجیاں، 6ہزار881 نگرے اور 8ہزار556 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی اوراس کے چبوترے جو تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ کنگروں سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔
بظاہر قلعہ روہتاس ایک بے ترتیب سا تعمیراتی ڈھانچا معلوم ہوتا ہے مگر شیر شاہ سوری نے اس کی تعمیر میں نقش نگاری اور خوبصورتی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ اس کا ثبوت قلعے کے دروازے اور شاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری سے ملتا ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان سوہل گیٹ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر خط نسخ میں کندہ کیے گئے مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں، جن میں سے ایک پر کلمہ اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔
شاہی مسجد:
شاہی مسجد چھوٹی لیکن خوب صورت مسجد ہے۔ یہ مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔
حویلی مہاراجا مان سنگھ پانچ ہزاری:
حویلی مان سنگھ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے وفادار جرنیل راجا مان سنگھ کے نام سے موسوم ہے، جس کا انتقال 1614ء میں ہوا۔
رانی محل:
رانی محل حویلی مان سنگھ سے تین سو گز کے فاصلے پر شمال کی جانب موجود ہے۔ اس میں راجا مان سنگھ کی بیوہ بہن شریمتی روپ کماری رہتی تھی۔
مقبرہ خیر انساء:
مقبرہ خیر النساء قلعہ کی حدود سے باہر شمال کی جانب بنی ہوئی ایک چھوٹی سی عمارت ہے۔ یہ درحقیقت خیر النساء کا مقبرہ ہے، جو شیر شاہ سوری کے وزیر خوراک کی بیٹی تھی۔ خیر النساء اپنے وقت کی شہرت یافتہ بہادر فوجی عورت تھی۔ اس نے شیر شاہ سوری کے ہمراہ چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں حصہ بھی لیا تھا۔
موجودہ حالت:
حال ہی میں یونیسکو پاکستان اور ایس ٹی پی ایف نے مل کر مقامی آبادی خصوصاٌ نوجوانوں اور اسکول کے بچوں کے اشتراک سے اس عالمی ورثے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں اے آئی سی ای کا ساتھ دیا ہے۔ اس مہم کے تحت یہاں کی آبادی کو یہ شعور دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجود اس شاندارورثے کے امین اور وارث بنیں اور یہاں آنے والے سیاحوں کو یہاں کی تاریخ، علاقائی ثقافت اور قلعے کے محل و قوع سے روشناس کروائیں۔
ایک لازوال میراث:
جیسے ہی سورج پنجاب کی سبزہ زار پہاڑیوں پر غروب ہوتا ہے، قلعہ روہتاس کے قدیم پتھروں پر سنہری چمک ڈالتا ہے۔ یہ شاندار قلعہ، اپنی تاریخ، فن تعمیر اور قدرتی حسن کے امتزاج کے ساتھ، خطے کے ثقافتی ورثے کی لازوال میراث کے طور پر کھڑا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو جنوبی ایشیا کی تاریخ کی پیچیدہ ٹیپسٹری کو سمجھنا چاہتے ہیں، قلعہ روہتاس کا دورہ ماضی کا ایک بے مثال سفر پیش کرتا ہے، جہاں ہر گوشہ گزرے ہوئے دور کی شان و شوکت کی بازگشت سناتا ہے۔
Source: https://www.express.pk/story/2235269/464/
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-01/25206
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک