اشفاق احمد :لفظوں کے استاد

پاکستانی ادبی اور سنیما کے شعبوں میں ایک مشہور شخصیت اشفاق احمدنے ایک مصنف ، ڈرامہ نگار اور نشریاتی ادارے کے طور پر  پاکستان  میں اہم خدمات سر انجام دیں ۔ وہ  22  اگست 1925 کو بھارت کے صوبے  پنجاب کے شہر مکتسر میں پیدا ہوئے ، اشفاق احمدکا تعلق مہمند قبیلے سے تھا ۔ ان کی ابتدائی تعلیم مکتسر میں ہوئی ، لیکن 1947 میں تقسیم ہند سے کچھ عرصہ پہلے وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور ، پنجاب میں آباد ہو گئے تھے ۔ بعدآزاں  انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی ۔

اشفاق احمدنے چھوٹی عمر سے ہی  اپنے لکھنے کا شوق ظاہر کیا ۔ بچپن میں ، انہوں نے کہانیاں لکھنا  شروع  کیں جو بچوں کے لیے مختص  کردہ میگزین "پھول”   میں شائع ہوئیں ۔ یورپ سے پاکستان واپس آنے کے بعد ، انہوں نے اپنا ماہانہ ادبی جریدہ "داستانگو” (کہانی سنانے والا) شروع کیا اور ریڈیو پاکستان کے لیے اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا ۔ مشہور اردو ہفتہ وار "لیل و نور” (دن اور رات) کے ساتھ ان کے کام نے ادبی دنیا میں ان کی ساکھ کو مزید مستحکم کیا ۔

اپنے شاندار کیریئر کے دوران ،  اشفاق احمد نے تیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں ۔ ان کی مختصر کہانی "گڈریا” (دی شیفرڈ) 1955 میں شائع ہوئی ، اور انہیں ابتدائی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ اردو ادب کے ساتھ مضبوط وابستگی کی بناءپر اشفاق احمد نے اپنے وسائل سے لاہور میں سنٹرل بورڈ فار دی ڈیولپمنٹ آف اردو قائم کیا ۔ 1962 میں ، انہوں نے اپنا    ریڈیو پروگرام "تلقین شاہ” (مبلغ) شروع کیا جس کی بناء پر  انہوں نے  قصبوں اور دیہاتوں میں وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کی ۔

1966 میں ، انہیں مرکازی اردو بورڈ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ، جسے بعد میں اردو سائنس بورڈ کا نام دیا گیا ، یہ عہدہ انہوں نے     29 سال تک برقرار رکھا ۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں انہوں نے وزارت تعلیم میں مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔ اشفاق احمد کی عوام کے ساتھ وابستگی ٹیلی ویژن کی وجہ سے وسیع  حد  تک پھیل گئی ، جہاں انہوں نے اپنے سامعین   کو  بصیرت انگیزاندا ز میں پروگرام پیش کرتے ہوئے "بیٹھک” (دی گیسٹ روم) اور "زاویہ” (دی اینگل) جیسے پروگراموں کے ذریعے مداحوں کی دلوں پر راج کیا۔

اردو ادب میں اشفاق  احمد کی خدمات میں ناول ، مختصر کہانیاں ،    ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ڈرامے شامل ہیں ۔ ان کے غیر معمولی کام کو صدر کے پرائڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سمیت باوقار ایوارڈز سے نوازا گیا  ۔

اشفاق احمد7 ستمبر 2004 کو لبلبہ کی کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئے ۔ انہیں ماڈل ٹاؤن ، لاہور   میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

ان کے قابل ذکر کاموں میں " تلقین شاہ” (1962) "اچھے برج لاہور دے” ، اور "چھوٹا کہانی” (1970 کی دہائی) جیسے ڈراموں کے ساتھ ساتھ "زویا” ، "من چلے کا سودا” ، اور "ایک محبت سو افسانے” جیسی کتابیں شامل ہیں ۔ ان کی ادبی خدمات  میں "گڈاریا: اجلے پھول” ، "تہلی تھلی” ، اور سمیت بہت کچھ شامل ہیں ، جو اردو ادب اور نشریات میں ان کی متنوع شراکت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ Sources:

1.     About Ashfaq , www.Zaviia.com  website. Retrieved 26 February 2019

2.      Ashfaq Ahmed – An Unforgettable Personality. www.Hamariweb.com

 

3.     Ashfaq Ahmed, winner of Sitara-i-Imtiaz Award and Pride of Performance Award on www.urdunovelsorg.com