ڈاکٹر رتھ فاؤ 8 مارچ 1960 میں پہلی بار پاکستان آئیں، اس وقت جب پاکستان میں کوڑھ کے مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا، ایسے وقت میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی اس خاتون ڈاکٹر نے جذام کے پاکستان سے خاتمے کیلئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی۔ جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے نیشنل لیپریسی کنٹرول پروگرام کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
مادام روتھ فاؤ نے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر قائم کیا اور اپنی تمام تر محبت ان مریضوں کو دی جنہیں ان کے اپنے بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ کوڑھ یا جذام کے مرض میں مریض کا جسم گلنے لگتا ہے اور ان زخموں سے شدید بدبو آتی ہے۔
جس زمانے میں پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیاجاتا تھا اور ان کے اپنے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتے تھے ایسے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتیں اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں۔ کراچی میں انہوں نے سسٹر بیرنس کے ساتھ میکلو روڈ پر ڈسپنسری سے کوڑھ کے مریضوں کی خدمت شروع کی۔ جس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے میری ایڈیلیڈ لپروسی سنٹر کی بنیاد رکھی۔ یہ سنٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔ انہوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
ڈاکٹر روتھ پاکستان میں جذام کے علاج کے سنٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 170 تک پہنچ گئی۔ یہ سنٹرز اب تک ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچا چکے ہیں۔
ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی کوششوں سے پاکستان سے جذام کا خاتمہ ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کوجذام پر قابو پانے والا ملک قرار دے دیا۔ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جذام پر قابو پایا گیا۔ حکومت پاکستان نے 1979ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو جذام کے خاتمے کے لیے وفاقی مشیر بنایا۔ 1988ء میں ڈاکٹر فاؤکو پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔
جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی کے 57 برس وقف کئے۔ ڈاکٹر فاؤ کو ان کی گراں قدر خدمات پر پاکستانی حکومت کی جانب سے انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ جبکہ جرمن حکومت نے انہیں بیم بی ایوارڈ اور آغا خان یونیورسٹی نے روتھ فاؤ کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

Sources:
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/829881_1
Pictures: