سال 2047 میں، کراچی شہر میں بیس سالہ عائشہ اپنے والد کے مطالعے کے کمرے میں گھوم رہی تھی۔ یہ ایک ایسا کمرہ تھا جو ماضی کی یادگاروں سے بھرا ہوا تھا—پرانی کتابیں، خاندانی تصاویر، اور کاغذات سے بھری ایک لکڑی کی میز۔ اس بے ترتیبی کے درمیان اسے چمڑے سے ڈھکا ہوا ایک گرد آلود جریدہ ملا، جس کا عنوان تھا: "پاکستان: ایک ذاتی عکاسی”۔ حیرت اور تجسس کے ساتھ اس نے جریدہ کھولا اور پہلے صفحے پر احتیاط سے لکھے گئے الفاظ پڑھے: "یہ بھی سچ ہے کہ ہر پاکستانی بدانتظامی کی خامیوں کے بارے میں سنجیدگی سے فکر مند ہے، جو اکثر ملک کی طاقت اور کامیابیوں پر چھائے رہتے ہیں…”۔

یہ الفاظ پڑھ کر عائشہ کو اندازہ ہوا کہ یہ جریدہ اس کے دادا کا تھا، جو 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک صحافی رہے تھے۔ جیسے ہی اس نے جریدے کے صفحات پلٹنے شروع کیے، ماضی کی روشن تصویریں اس کے ذہن میں زندہ ہونے لگیں۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ 2000 کی دہائی کے اسلام آباد کی گلیوں میں کھڑی ہو۔ وہاں ایک احتجاج جاری تھا، جہاں ایک نوجوان جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کر رہا تھا اور احتساب اور تبدیلی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس کے ارد گرد وہ سب نشانیاں موجود تھیں جن کا ذکر اس کے دادا کرتے تھے: ناقابلِ بھروسہ بجلی، گندی سڑکیں، اور مایوسی کی فضا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کی امید اور حوصلہ بھی واضح تھا۔ دکاندار انتھک محنت کر رہے تھے، بچے گرد آلود گلیوں میں کرکٹ کھیل رہے تھے، اور طلباء مستقبل کے خوابوں پر گفتگو کر رہے تھے۔

پھر عائشہ کا تخیل اسے ایک دیہی گاؤں کی طرف لے گیا، جہاں زندگی سست روی سے لیکن عزم کے ساتھ گزر رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عورتیں ایک درخت کے نیچے جمع تھیں اور اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کے طریقوں پر بات کر رہی تھیں۔ ایک عورت کے الفاظ نے اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑا: "ہو سکتا ہے ہمارے پاس زیادہ وسائل نہ ہوں، لیکن ہم اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر شروعات کر سکتے ہیں۔” ان خواتین کی لگن نے عائشہ کو ان رہنماؤں، سائنس دانوں، اور اساتذہ کی یاد دلائی، جنہوں نے ان چھوٹے خوابوں کو بڑی حقیقتوں میں بدل دیا تھا۔

گاؤں سے نکل کر، عائشہ نے خود کو لاہور کی ایک یونیورسٹی کے مصروف راہداریوں میں تصور کیا، جہاں نوجوان مرد و خواتین پاکستان کے مستقبل پر جوش اور عزم کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔ وہ جدت، اتحاد، اور قوم کی صلاحیتوں پر یقین کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ عائشہ کے ذہن میں اس کے پردادا کے الفاظ گونجنے لگے: "پاکستانی اپنے مستقبل کے بارے میں ناقابلِ تسخیر اعتماد رکھتے ہیں۔”

جب عائشہ نے جریدہ بند کیا، تو اس کی نظر کھڑکی سے باہر کراچی کے آسمان پر پڑی۔ اگرچہ یہ شہر اب بھی شور اور ہلچل سے بھرا ہوا تھا، لیکن یہ کئی حوالوں سے ترقی کر چکا تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ موثر ہو چکی تھی، صاف توانائی کے منصوبے گھروں اور کاروباروں کو چلا رہے تھے، اور تعلیم ہر شخص کا حق بن چکی تھی۔ پاکستان یوٹوپیا تو نہیں تھا، لیکن یہ ایک ایسا ملک تھا جس نے اپنی بیشتر مشکلات پر قابو پا لیا تھا اور اپنے ماضی کی جدوجہد سے سیکھا تھا۔

جریدے کو واپس شیلف پر رکھتے ہوئے، عائشہ نے گہری شکرگزاری محسوس کی۔ اس کے دادا کی نسل کے حوصلے اور عزم نے ان مواقع کی بنیاد رکھی تھی جن سے وہ لطف اندوز ہو رہی تھی۔ کمرے سے نکلتے ہوئے، اس نے عزم کیا کہ وہ بھی اسی وراثت کو آگے بڑھائے گی اور آنے والی نسلوں کے لیے امید، ترقی، اور اتحاد کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرے گی۔