اکیس 21اگست:  متاثرینِ دہشت گردی کی یاد اور خراج عقیدت کا عالمی دن

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

ساکت قلم  اور گنگ زباں سے درد کی وادی کا سفر کرنے کی ہمت ہے تو چلیں کہ احساسات و جذبات کو آزماتے ہیں کہ کرب کے قرب میں رہ کے ضبط کتنا رہتا ہےاور اوسان کتنے خطا ہوتے ہیں۔ الفاظ میں نہ تاثیر ہوتی ہے نہ تصور میں خیال ٹکتا ہے جب درد، غم اور سسکیوں کے پیچھے محرومی محو ماتم نظر آتی ہے ۔نقصان کا تخمینہ لگ ہی نہیں سکتا کہ کیا کیا کھودیا اور آنسو ؤ ں کی دنیا میں بسیرا ہوتا جاتاہے۔

 کہنے کو دہشت گردی واقعات پہ مبنی ہوتی ہے مگر اس کے متاثرین کس دنیا کے باسی بن چکے ہوتے ہیں ،کوئی  بھی پیمانہ اس رنج و الم کو ناپنے کی صلاحیت رکھنے سے عاری نظر آتا ہے۔جب جرم ، خطا اور گناہ نظر نہ آئے مگر سزا مل جائے تو احساس کی کیفیت کو نہ لفظ نہ تصور اندر کی دنیا کی باہر کی دنیا تک ظاہر کر سکتا ہے۔ گولی، بم اور دیگر تخریبی ذرائع نہ صرف انسان کی چیتھڑے اڑاتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہلا کے انسانیت کا شیرازہ بکھیر دیتے ہیں جس کی تلافی چاہ کے بھی نہیں کی جا سکتی۔ ماں کی جھولی ویران ہو گئی، کسی کا سہاگ لٹ گیا، کسی کے سر سے دست ِشفقت چلا گیا، کسی بہن کا نگہبان بھائی راہ عدم کو چل دیا، کسی باپ کا سہارا چلا گیا، کسی یوسف کے جانے سے یعقوب کی بینائی گئی، کسی دوست کا ہمدرد درد میں بے آسرا ہوا، کسی کے چاہنے والا ان چاہے راہ کا مسافر بن گیا، سوئی کے چبھنے کو برداشت نہ کرنے والا اپنے پیارے کے جسم کے ٹکڑے کو اکٹھا کرتے کرتے خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، مالدار سے بے یارومددگار ہو گیا، علم کی راہ پہ جانے والا لقمہ اجل بن جانے سے لا علم گھر کو روتا چھوڑ گیا،جانے والے کی کھلی آنکھیں کتنے ارمانوں اور حسرتوں کو لٹتے دیکھ کے پتھرا گئیں، کچھ کے گھر ایمبولینس آئی، کچھ اپنے گھر صرف اک خبر بن کے لوٹے، کچھ کے انتظارمیں آنکھوں میں صحرا امڈ آیا، کچھ نومولود ہوئے خون آلود، رنج و الم، آہ و بکا، اشکوں کے نہ تھمنے کا سلسلہ، مرحوم اور محروم کی وصولی، خوابوں کا چکنا چور ہونا، کرب وبلا کی داستانیں، ان دیکھے خوف اور ڈر، امنگوں اور آرز ؤ ں کا قبرستان، تندرست زندگی سے اپاہج پن کا شکار ہونا، بند مٹھی کی گرفت بظاہر مضوط ہوتی نظر آتی مگر خشک ریت انگلیوں کی خلاوں سے نکلتی جائے اور بے بسی دیکھِی نہ جائے، ویران مکان، بنجر کھیت کھلیان، چند ساعتوں کے مہمان، موت سے بے دھیان، مائیں اپنے لالوں کی تصویروں کپڑوں یونیفارم سے خوشبو سونگھتی باتیں کرتی، غم بھلانے کی کوشش میں ناکام ذہنی اذیتوں سے دوچار، خوشحالی سے بدحالی تک کی حیثیت میں بدلنا، خوشی کے لمحات کا غم ناک کیفیتوں میں اتر جانا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر سب کیوں ہے؟ کس کے لیے ہے؟ اور کب تک رہے گا؟ ۔۔۔۔۔۔ اس چمن میں ہر کھلنے والا پھول باغبان کو بے حد پیارا ہے مگر شیطانی راہوں کے سوار اپنی تخریبی اور دہشتگردانہ کاروائیوں سے سب نیست و نابود کرنے کے در پےہیں۔ یاد رکھیے گا کہ جو درد سہہ جاتا ہے، غم اور دکھ کی گھڑی گزار جائے ، وہ پھر نہ پست حوصلہ ہوتا ہے نہ بزدل۔ وہ اپنے آبا ؤ اجداد کی شجاعت اور ہمت کا امین ہوتا ہے اور اسی جذبے سے دشمنوں کی نیند حرام کیے رکھتا ہے۔ شہداء کی سرزمین کبھی بنجر نہیں ہوتی، ایک کے بعد ایک نکل کے انسانیت کے تحفظ کے لیے سامنے آتا ہے اور بزدلوں کے دلوں میں دھاک بٹھا کے رکھتا ہے۔ اس کے عزائم اور نصب العین انتہائی بلند ہوتے ہیں۔ نہ وہ غمزدہ ہوتا ہے نہ کسی خوف کا شکار ہو سکتا ہے، اسے صرف رب کی ذات کا ڈر ہوتا ہے۔

 پاکستان سمیت دیگر ممالک کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ لا تعداد معصوم انسان دہشت گردی  کی بھینٹ چڑھے ۔   ان دہشتگردوں نے اپنے آقا ؤ ں کی خوشنودی کے لیے مذہب، قوم ، زبان ، رنگ و نسل، صوبائی تعصب، وسائل اور نام نہاد آزادی سمیت دیگر بہانے گھڑ کے ناحق خون بہایا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو کثیرالجہتی پریشانیاں اور نفسیاتی، انفرادی، اجتماعی، معاشی، معاشرتی، قومی، علاقائی چیلنجز کا سامناہے ۔ سب سے بڑھ کرعدم تحفظ کا شکار، اعتماد کی فضا کا آلودہ ہونا اور ترقی میں تنزلی جیسے احساسات کا جنم لینا شامل ہے۔ جن لوگوں نے امن کی خاطر اپنی جانیں قربانی کیں،  اپنی آرزؤں  کو ختم کیا،  اپنے پیاروں کو اپنی دائمی جدائی دی ، وہ سب رائیگاں نہیں جانے دیا جا سکتا۔ ان امن کے داعیوں کے لیے اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے منافرت کی حوصلہ شکنی، خون کے تقدس کے تحفظ کی یقین دہانی اورقربانی وایثار کا جذبہ برقرار رکھنا ہو گا۔

امن کے قلعہ کی بنیادوں میں جن شہیدوں کا لہو موجود ہے ،ان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے دہشت گردی سے متاثرین کی قربانی کو یاد کرنے اور خراج عقیدت دینے کی خاطر باقاعدہ ایک دن 21 اگست کو مختص کیا ہے۔ اس دن کے توسط سے دہشت گردوں کو ہم پیغام دیتے ہیں کہ دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر قدم اٹھایا جائے گا اور تمہارے تمام ناپاک ارادوں کو اسی جذبے سے خاک میں ملایا جائے گا تاکہ عالمی امن کو بحال اور برقرار رکھنے کا عزم پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ کیونکہ باغبان کے چمن کی حفاظت وہی کر سکتے ہیں جن میں انسانیت کا درد ہو اور اس کی عظمت کے قائل ہوں۔ یہ دن تجدید وفا کا دن ہے جو امن سے عہد کو نبھانے کے جذبے کو کبھی پست نہیں ہونے دے گا۔

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

 

                   سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا