اندرونی خلفشار: فرقہ وارانہ دہشتگردی کا ایک پُرانا حربہ آج ہمیں معاشرے میں جو متعدد فرقے اور گروه نظر آتے ہیں، وہ نہ تو پاکستان کے لیے نئے ہیں اور نہ ہی اسلام کے لیے۔ ان میں سے زیادہ تر فرقے اور گروه صدیوں سے، بغیر کسی ناخوشگوار واقعے یا تنازعات کے، باہمی تعاون اور رواداری […]
اندرونی خلفشار: فرقہ وارانہ دہشتگردی کا ایک پُرانا حربہ
آج ہمیں معاشرے میں جو متعدد فرقے اور گروه نظر آتے ہیں، وہ نہ تو پاکستان کے لیے نئے ہیں اور نہ ہی اسلام کے لیے۔ ان میں سے زیادہ تر فرقے اور گروه صدیوں سے، بغیر کسی ناخوشگوار واقعے یا تنازعات کے، باہمی تعاون اور رواداری کے ساتھ پُرامن طریقے سے اکھٹے رہتے رہے ہیں۔ لِہٰذا ، آج فرقہ واریت کی جو صورتحال ملک میں دکھائی دیتی ہے، وہ غیر معمولی ہے اور صدیوں کی پرامن بقائے باہمی کے خلاف ہے۔ چونکہ پاکستان میں فرقہ واریت اب دہشت گردی کی سب سے نمایاں شکل بن چکی ہے، اس لیے اس کی بڑھتی ہوئی شرح اور پرامن ماضی سے اس کے غیر متوقع انحراف کی وجوہات کی تحقیقات کرنا ضروری ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ تحریکِ پاکستان کسی ایک فرقے یا گروه کی جانب سے نہیں بلکہ برصغیر کےتمام مسلمانوں نے متحد ہوکر چلائی کی گئی تھی، اوراسی اتحاد سے خائف ہو کر ملک دشمن عناصر اسے سبوتاژ کرنے اور ملک میں عدم استحکام پھیلانے کیلئے سرگرمِ عمل ہیں ۔ فرقوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا دینا قوم کے اتحاد اور ریاست کی بقاء کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ۔
"فرقوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا دینا قوم کے اتحاد اور ریاست کی بقاء کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ۔”
اگر چہ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد اور خفیہ مداخلت کے پیچھے انکے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں ۔تاہم، مختلف گروہوں کیلئے فرقہ واریت کو ترجیح دینے کی کئی دیگر محرکات اورترغیبات بھی ہیں۔ان گروہوں میں سب سے پہلے تو لشکر جھنگوی جیسے خود ساختہ عسکریت پسند گروہ ہیں کہ جن کی موجودگی ہی فرقہ واریت پھیلانے پر منحصر ہے ۔ درحقیقت، فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث تمام تنظیموں کا فرقہ واریت کو پروان چڑھانے اور عوام کو بھڑکانے میں براہ راست مفاد ہے۔ ایسے کشیده حالات اور تنازعات و تناؤ کے بغیر، یہ گروہ نہ صرف اپنے رہنما اصولوں اور نظریات سے محروم ہوجائیں گے بلکہ اپنی موجودگی کا جواز بھی کھو دیں گے۔ اس لیے، یہ ان کے مفاد میں ہے کہ وہ نہ صرف دوسرے تمام فرقوں بلکہ اپنے فرقے کے اُن افراد کو بھی بدنام کریں اور نشانہ بنائیں جو انکی مخالفت کرتے ہوئے انھیں مسترد کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے گروہ جو اکثر فرقہ وارانہ کارڈ کا استعمال کرتے ہیں وہ تحریکِ طالبان جیسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے کسی مخصوص مذہبی فرقے یا گروہ کی پرواہ کیے بغیر ، ریاست اور اِس کی عوام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے ۔ اگرچہ ایسے گروہوں کے درمیان کوئی واضح فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہے لیکن وہ اس کارڈ کو فرقہ واریت پھیلانے اور سرگرم فرقہ وارانہ گروہوں کے ساتھ اتحاد اور شراکت داری کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان کے مقاصد اور اہداف مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن عارضی فوائد کے حصول کیلئے یہ گروہ اپنے نظریات کو استعمال کرنے اور انکو تبدیل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
تیسری قسم کے گروہ وہ ہیں جو فرقہ بندی کا استحصال ذاتی فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ان میں القاعدہ اور داعش جیسے گروہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان تمام گروہوں کا عالمی ایجنڈا ہے اور ان کے طویل مدتی مقاصد عام طور پر ریاستی سرحدوں سے بالاتر ہیں ، تاہم وہ پھر بھی فعال طور پر فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے مُرتکِب ہوتے ہیں۔ عالمی ایجنڈے کے حامل ایسے بین الاقوامی گروہوں کے مقامی اور چھوٹے پیمانے پر فرقہ وارانہ جھگڑوں میں ملوث ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر حقیقی اور متعین دشمن یا تو اِنکی پہنچ سے باہر ہیں یا پھر ناقابلِ رسائی ہیں۔ مثال کے طور پر، داعش اور اس کی مقامی شاخ داعش خراسان ، امریکہ اور مغرب کو اپنے بنیادی اہداف کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر رسائی کی کمی کی وجہ سے وہ اکثر معمولی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھے رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ایسے گروہ جب اپنے حقیقی دشمنوں تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں،تو اپنی اجاره داری قائم رکھنے کیلئے یہ دہشتگرد با آسانی اپنے گردونواح میں موجود گروہوں سے دشمنی مول لیتے ہیں ۔ وہ تقسیم اور انتشار کی بنیاد پر پروان چڑھتے ہیں اور وہ دھوکہ دہی اور چالاکی کے ذریعے اپنی صفوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"ایسے گروہ جب اپنے حقیقی دشمنوں تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں، تو اپنی اجاره داری قائم رکھنے کیلئے یہ دہشتگرد با آسانی اپنے گردونواع میں موجود گروہوں سے دشمنی مول لیتے ہیں ۔ وہ تقسیم اور انتشار کی بنیاد پر پروان چڑھتے ہیں اور وہ دھوکہ دہی اور چالاکی کے ذریعے اپنی صفوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
الغرض، فرقہ واریت ایسے دہشتگرد عناصر کی اکثر محض ایک چال ہوتی ہے جس کا استعمال بقاء کے لیے، دوسرے گروہوں سے اتحاد ، اور اندرونی خلفشار کے ذریعے معاشرے میں مختلف فرقوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کیا جاتا ہے۔اس طرح کی تمام سازشوں اور ملی بھگت کرنے والے گروہوں کی فرقہ وارانہ اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مفادات، عملی رکاوٹوں، بدنیتی پر مبنی ارادوں اور خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا جائے۔
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک