تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں پشتون ولی کی پامالی

 قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔”اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہےسورہ الحجرات آیت (13"۔ اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو جوڑوں میں تخلیق کیا پھر اسے معاشرتی وسعت میں لا کر گروہ اور قبیلے  کا شعور عطا کیا تاکہ ایک دوسرے کی پہچان میں آسانی واقع ہو اور عزت مل سکے مگر جو اللہ کی راہ پہ چلے گا وہ سب سے زیادہ عزت کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی انفرادی  اور اجتماعی  طور پہ حقیقی پہچان اور عزت تبھی پا سکتا ہے جب وہ خود کواور اپنے قبیلے کو   برائی سے محفوظ رکھے تاکہ اللہ کے ہاں معززین   میں شمار ہو سکیں۔ لیکن جو برائی کی جانب راغب ہو گا وہ یقینی طور پہ اپنے اور قبیلے کو بدنام کروائے گا جس اللہ کی بارگاہ میں  ذلت  و رسوائی ہی مقدر ہو گی۔

پاکستان بھر میں لوگ مختلف  قبیلوں میں بسے ہوئے نظر آتے ہیں جن کی روایات، رسم و رواج اور تقافت پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان اور آن ہے۔ انہی میں محسود پشتون قبیلہ بھی نمایاں ہے جس کے افراد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے بھرپور خدمات دے رہے ہیں اور ملک، علاقہ اور قبیلہ کا نام روشن کیا۔ ریاست بھی ان کے اس کردار کی معترف ہے۔  قبائلی طرز معاشرت اک نظام کے تحت چلتا ہے  اور پشتون قبائل پشتون ولی نظام کے تحت اپنی زندگی بسر کرتےہیں۔ اس نظام کے کچھ  بنیادی ستون ہیں جن میں مہمان نوازی، تحفظ،بدل،بہادری،وفاداری،پارسائی،عزت و ناموس،ایمان،استقامت،غیرت اور سرزمین شامل ہیں۔یہ ضابطہ حیات پشتون قبائل میں مکمل رائج ہے اور ان قبائل کی پہچان ہے۔  اس میں عزت اور وفاداری سر فہرست ہیں۔

کافی عرصہ سے پاکستان دہشت گردی کا شکار بنتا آرہا ہے اور اس کی زد میں آکے کچھ قبائل بری طرح متاثر ہوئے ان میں محسود قبائل بحی شامل ہیں۔دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان  کا موجودہ سر کردہ  نور ولی خود کو محسود کہلاتا ہے،  ویسے تو یہ اپنے نام کی لاج تک نہیں رکھ سکا نہ کہیں سے اس شب ظلمت میں کوئی نور ہے نہ اس کی امید ہے اور نہ ہی یہ کسی کا ولی یعنی دوست بن پایا۔ رہی بات محسود قبیلے کی تو اس انسان نے محسود قبیلے کو ہی نہیں پشتونوں کو اور پشتون ولی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ نور ولی کا مطلب تو روشنی کا ساتھی، ہدایت کو عام کرنے والا، امید دلانے والا ہوتا ہے مگر یہ حیوانی ،شہوانی اور ابلیسی تعلیمات کا سر چشمہ ،کوئی بھی انسانی خدمات دینے میں مکمل ناکام رہا کیونکہ سوچ انسانوں والی ہو تو انسان نور ولی بنتا ہے ورنہ ظالم وحشی ۔ یہ نہ مفتی، نہ عالم، نہ کوئی مسیحا ہے یہ سراسر شیطانیت پہ معمور گماشتہ ہے جو قابل نفرت ، ملامت، حقارت ، ذلالت ، راندہ کائنات کا حقیقی چیلہ ہے۔ پشتون روایات کو اس بے شرم اور قبیلہ دشمن نے جتنا نقصان پہنچایا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ، اس ظالم بھیڑیے نے پشتون قبائل کے نوجوانوں کو ورغلایا انہیں تخریب کاری پہ اکسایا اور ان سے نہایت گھناؤنے واقعات رونما کروائے ۔

قبائلی ہمیشہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفادار رہے مگر اس خناس نے ان کے بچے ان سے چھینے ،ان کے وارثین سے انہیں محروم کیا، ان  کوبے جرم  ذلیل و رسواء کیا ،انکے کاروباراور علاقے کے امن اور ترقی کو روکے رکھا، ان کے جرگہ کو نقصان پہنچایا ان کا تشخص بری طرح پامال کیا تو وہ کیسے اس بے ہودہ انسان کو قبول کر سکتے ۔ اس کی شیطانی کتاب میں سوائے ظلم ، بربریت ، اسلامی تعلیمات سے مکمل انحراف اور محسود قبیلے پہ بہتان تراشیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ قبائلی نوجوان آج چیخ چیخ کے نور ولی سے پوچھ رہا ہے کہ بتاو   کہ تم نےپشتونوں کے لیے کون کون سے نیک نامی والے کام کیے؟ کتنے نوجوانوں کو رزق حلال دلوایا؟ کتنی پشتونوں کو عزت دلائی؟ کتنے بچوں کو نیکی کی تعلیم دی اس کے برعکس سکولوں ، مساجد اور مدارس کو نشانہ بنایا؟ کتنے نہتے لوگوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی؟کتنے گھروں کو مسمار کیا؟ کتنے گھروں کے  کفیل قتل کر کے ان کے چولہے ٹھنڈے کیے؟ کتنے معصوم بچوں کو ذبح کیا؟ کتنے نوجوانوں کو ورغلا کے تخریبی کاروائیوں  میں شامل کیا؟ کتنے پشتون نوجوانوں کو دہشت گردی کی نذرکیا؟ کتنے نوجوانوں کو روزگار اور کاروبار سے محروم کیا؟تمہاری حرکتوں کی وجہ سے پشتون کتنی اذیت میں رہے؟تم اورتمہارے جتھے کی وجہ سے علاقہ اور قبیلہ کتنی بد امنی اور پریشانیوں سے دوچار رہا ہے؟  پشتون ولی کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوئی ایک مثبت کام کیا؟ جب تمہارے حصے میں کوئی ایک احسن اقدام نہیں تو تم پہ کون ،کیوں اور کیسے بھروسہ  کرے؟ تمہاری وجہ سے پشتونوں کو کس کس نام سے پکارا گیا ؟ ۔۔۔۔۔۔

مگر تمہیں کیوں احساس ہو اس سب کا؟ نہ تم نے اسلام کے لیے کوئی خدمات دیں، نہ پشتونوں کے لیے اور نہ ہی پشتون ولی کے لیے نیک نامی کمائی۔ نہ تم عزت والے نہ قبیلے سے وفادار، نہ سر زمین کا دم بھرنے والے ۔ جس زمین اور قبیلے نہ تمہیں پالا پوسا تمہیں نام دیا اسی پہ فتنہ و فساد برپا کیا اور اپنی غیرت کا سودا کر کر اسلام او اسلامی جمہوریہ پاکستان  کے دشمنوں کا آلہ کار بن کر انتہائی شرمساری والے امور سر انجام دیے۔ قبائلی نوجوان اور دیگر افراد تمہیں تمہاری سوچ اور قابل نفرت حرکتوں کی وجہ سے مکمل رد کر چکے ہیں۔ تم کسی کے خیر خواہ نہیں ۔

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

         کوئی نوجوان اب کھلی آنکھوں اس اندھیرے کنویں میں چھلانگ نہیں لگائے گا اور نہ کسی کو لگانے دے گا۔ پشتون نوجوان کو پشتوں ولی کا تحفظ اور اس کا وقار ہر صورت برقرار رکھے گا اور اس کی پامالی ہر گز  ان دہشت گردوں کے ہاتھوں  نہیں ہونے دے گا ۔ 

اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد!