عسکریت پسندوں کی جانب سے بلوچ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے پرفریب  بیانیے کا تجزیہ

عسکریت پسند گروہ اپنے مذموم مقاصد کو آزادی  اور خود مختاری کے لبادے میں چھپاتے ہیں اور یوں سادہ لوح عوام کی شکایات کو تشدد کے لیے جواز بنا کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسی تنظیمیں حساس سماجی ڈھانچے میں خلل انداز ہوتی ہیں اور خوف و ہراس پھیلاتی ہیں۔اپنی تنظیم میں رکن سازی کے لیے وہ معاشرے کے ایسے افراد کو نشانہ بناتی ہیں جنکی ریاست سے کچھ شکایات ہوں یا وہ مایوسی کا شکار ہوں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ان کی توجہ نوجوانوں کو ورغلانے پر مرکوز رہی ہے۔ بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیمیں اسی راستے پر گامزن ہیں جس پر چلتے ہوئے وہ آزادی  اور خود مختاری کے نام پر اپنی لرزہ خیز پُرتشدد کاروائیوں کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

"عسکریت پسند تنظیمیں، نوجوانوں کو ورغلانے کی غرض سے ریاست اور اس کے اداروں کو بلوچستان کے سماجی و معاشی مسائل کے لیے موردِ الزام ٹھہرا کر ریاست کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔”

عسکریت پسند تنظیمیں، نوجوانوں کو ورغلانے کی غرض سے ریاست اور اس کے اداروں کو بلوچستان کے سماجی و معاشی مسائل کے لیے موردِ الزام ٹھہرا کر ریاست کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے مطابق چین  پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اور چینی، بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود ان عسکریت پسند تنظیموں نے بلوچستان کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ کیا قتل و غارت، آئی ای ڈی (IED) سے کیے جانے والے حملوں اور بم دھماکوں سے کسی کو آزادی یا خود مختاری حاصل ہوتی ہے؟ گوادر کی بندرگاہ پر مارچ 2024 میں ہونے والا حملہ اور مئی 2024 میں معصوم محنت کش مزدوروں کا قتلِ عام، بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لاتعداد سفّاکانہ حملوں میں سے محض دو مثالیں ہیں۔ مزید برآں، صرف 2023 میں ہی بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں صوبے میں 110 حملوں کیلئے ذمہ دار ہیں ۔ بزدلی پر مبنی ایسے غیر منصفانہ اور پُرتشدد افعال کیسے خوشحالی کی جانب لے کر جا سکتے ہیں؟ جب معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جائے اور جب عوام کو فائدہ پہنچانے والی اہم  تنصیبات پر حملہ کیا جائے تو اس سے ترقی کی جانب سفر کیسے ممکن ہو سکے گا؟

دوسری جانب، ریاستی اقدامات بالخصوص سی پیک کے تحت کیے جانے والے اقدامات کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور عملی طور پر فعال ہیں۔ سی پیک نے توانائی، ذرائع نقل و حمل، سماجی ترقی اور سپیشل اکنامک زونز (SEZs)  سمیت متفرق شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کر کے فعال بنایا ہے۔ یہ اقدامات، ملازمت کے مواقع پیدا کرکے اور مقامی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بناتے ہوئے، بلوچ عوام کی معاشی اصلاح و ترقی میں قابلِ ستائش کردار ادا کریں گے۔ ان منصوبوں کے نتیجے میں لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا اور ترقی و خوشحالی  کے مواقعوں میں اضافہ ہو گا۔

"سی پیک نے توانائی، ذرائع نقل و حمل، سماجی ترقی اور  سپیشل اکنامک زونز (SEZs)  سمیت متفرق شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کر کے فعال بنایا ہے۔"

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے سامنے آنے والے آزادی و خود مختاری کے مسخ شدہ بیانیے، ان کی رکنیت سازی کے حربوں میں سے ایک بنیادی حربہ ہیں۔ یہ گروہ، عوامی شکایات کو استحصال کے لیے استعمال کرتے  ہیں، سماجی احساسات و جذبات کو نشانہ بناتے ہیں اور ترقی و خوشحالی کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ ان بیانیوں کی نشر و اشاعت ، ان کے سوشل میڈیا چینلوں ، گروہی اجتماعات اور طلبہ تنظیموں کے ذریعے کی جاتی ہے۔آج کل انھوں نے اپنی توجہ خواندہ نوجوانوں اور جامعات کے طلبہ و طالبات کی شمولیت کی جانب مبذول کر لی ہے۔ معروف  تجزیہ کار، محمد عامر رانا خواندہ نوجوانوں کو تین زمروں میں تقسیم کرتے ہیں: (ا) غیرسیاسی اور اعتدال پسند مذہبی نوجوان  (ب) مذہبی طور پر حسّاس مگرکم سیاسی شعور رکھنے والے نوجوان (ج) سیاسی شعور رکھنے والے اور مذہبی حوالے سے آزاد فکر کے حامل نوجوان۔ خواندہ نوجوانوں میں سے، بالخصوص جامعات میں، تیسرے زمرے سے تعلق رکھنے والوں کوایسی تنظیموں کے لیے ممکنہ اراکین کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔  

"بلوچستان کی خوشحالی، عسکریت پسندوں کے تشدد سے نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے بلوچستان کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے شروع کیے گیے ترقیاتی منصوبوں کے باعث ممکن ہو سکے گی۔”

 

بلوچستان کی خوشحالی، عسکریت پسندوں کے تشدد سے نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے بلوچستان کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے شروع کیے گیے ترقیاتی منصوبوں کے باعث ممکن ہو سکے گی۔ عسکریت پسند تنظیمیں اپنے ظالمانہ اور غیرمنصفانہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیےمختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی رہیں گی۔ ان کی جانب سے’ ایک عظیم انقلاب کے وعدے اور اختیار و آزادی کی جدوجہد’، وہ پردے ہیں جو ان کی بہیمانہ اصلیت کو چھپائے ہوئے ہیں۔عوام کو انکی اصلیت بتانا ضروری ہے کہ درحقیقت یہ تنظیمیں تباہی و بربادی کی محرک ومنصوبہ ساز ہیں۔