احمد ندیم قاسمی ایوارڈ یافتہ فسانہ نگار،ترقی پسند شاعر،نقاد،محقق، کالمنویس، مدیر ادبی رسالہ فنون) چند گوہر نایاب نے پاکستان کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے اور اہل وطن کے سر فخر سے بلند کرکے نئی نسل کو آرٹ اور ثقافت کے تمام ممکنہ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن کا نام […]
احمد ندیم قاسمی
ایوارڈ یافتہ فسانہ نگار،ترقی پسند شاعر،نقاد،محقق، کالمنویس، مدیر ادبی رسالہ فنون)
چند گوہر نایاب نے پاکستان کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے اور اہل وطن کے سر فخر سے بلند کرکے نئی نسل کو آرٹ اور ثقافت کے تمام ممکنہ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن کا نام رہتی دنیا تک لیا جاتا رہے گا. دنیائے ادب کے آسمان پر چمکنے والا ستارہ احمد ندیم قاسمی ضلع خوشاب کے انگہ نامی گاؤں میں 20 نومبر 1916ء میں پیدا ہوئے. آپ کا حقیقی نام احمد شاہ اعوان ہے جبکہ ندیم آپکا تخلص ہے .آپ نے میٹرک شیخوپورہ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے مکمل کیا. 1935ء میں بہاولپور سے بی اے کیا. ابتدائی حالات سازگار نہ تھے تو لاہور کی جانب رخت سفر باندھ کے چل پڑے. اسی اثناء میں ان کو اختر شیرانی سے ملنے کا اتفاق ہوا.جو معروف شاعر تھے اور آپ کے پسندیدہ تھے جنہوں نے آپ کی مکمل حوصلہ افزائی بھی کی. احمد ندیم قاسمی نے مولانا محمد علی جوہر کی وفات پہ اپنی پہلی نظم کہی.جو روزنامہ سیاست کی زینت بنی.آپکی شاعری روزنامہ انقلاب اور زمیندار میں چھپتی رہیں جن کی بدولت آپ کا نام بننے لگا.آپ نے غزلیں, نظمیں تحریر کرنے کے ساتھ کہانی نویسی بھی شروع کر دی اور کہانیوں کا پہلا مجموعہ "چوپال” منظر عام پہ 1935ء میں آیا جبکہ شاعری کی کتاب "دھڑکن” شائع ہوا.1940ء میں احمد ندیم قاسمی نے ایک فلم "دھرم پتنی” کے گیت اور مکالمے لکھے مگر وہ مکمل نہ ہو سکے.آپ نے مختلف رسائل اور روزنامہ کی ادارت بھی کی جن میں پھول, تہذیب نسواں, ادب لطیف , سویرا , نقوش اور روزنامہ امروز شامل ہیں. انہیں ریڈیو پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پہ بھی کام کرنے کا موقع ملا.وہ ترقی پسند شاعر تھے اور اسی بدولت انجمن ترقی پسند مصنفین کا پاکستان میں سیکرٹری منتخب کیا گیا. بعدازاں اس سے لا تعلقی کر لی. آپ نے روزنامہ جنگ, حریت اور امروز کیلئے کالم بھی تحریر کیے.1963ء میں اپنا رسالہ "فنون ” جاری کیا. اپنی سوچ و فکر کی وجہ سے کئی پابند سلاسل بھی رہے. آپ پاکستان کے معروف سرکاری ادارے مجلس ترقی ادب کے سیکرٹری جنرل بھی اپنے فرائض منصبی بھی سر انجام دیتے رہے. آپ نے کم و بیش 50 کتب تصنیف دیں. جن میں پس الفاظ, درودیوار, دوام,سناٹا,لوح خاک,محیط, میرے ہم سفر,نیلا پتھر, کپاس کا پھول, آنچل,گھر سے گھر تک,بگولے,آبلے,طلوع و غروب, بازار حیات, آس پاس, جھوٹا, بھوت,جلال و جمال, شعلہ گل,کشت وفا, دشت وفا,بسیط, ارض و سماء, اس رستے پر,معنی کی تلاش,رم جھم, کیسر کیاری, کوہ پیما,سیلاب و گرداب,برگ حنا, میرے ہم قدم,پت جھڑ, انوار جمال, افسانے, گنڈاسا, اور دیگر شامل ہیں. آپ نی اپنی تحریر سے نہ صرف اردو زبان کے چار چاند لگائے بلک پست ہوئے طبقات کی بھی بھرپور ترجمانی کی ۔ معروف خاتون شاعرہ پروین شاکر کے آپ استاد بھی رہے. منشی پریم چند کے بعد دیہی ثقافت کو اپنے افسانوں میں آپ نے نمایاں رکھا. پی ٹی وی پہ آپ کے افسانوں کو ڈرامائی تشکیل دے کے قاسمی کہانی کے نام سے پروگرام چلائے جاتے رہے ہیں. احمد ندیم قاسمی کو ان کی ادبی دنیا کی خدمات پہ 1968ء میں صدر پاکستان کی جانب سے تمغہ ء حسن کارکردگی سے نوازا گیا. اسی طرح 1980ء میں صدر پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز دیا گیا. دارالحکومت اسلام آباد میں ۷ تھایونیو کو آپ کے نام سے منسوب کر دیا گیا. اس کے علاوہ پاکستان اکادمی ادبیات نے آپکو لائف ٹائم ایچیو منٹ کا اعزاز دیا. آپ نے ساری عمر لوگوں کو پڑھاتے سکھاتے گزاری. احمد ندیم قاسمی کی ذات پہ کافی کتابیں اور مقالہ جات بھی تحریر ہو چکے ہیں. آپ کے منفرد طرز بیان و کلام نے عوام الناس کو ہمیشہ آپ کا گرویدہ بنائے رکھا. آپ کی آواز کے سحر سے آسانی سے نکل جان نا ممکن تھا یہی وجہ کہ آپ کی شاعری کو لوگ بہت انہماک سے سنتے اور جھومتے نظر ہی آئے.10 جولائی 2006ء حرکت قلب ہونے کے سبب آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. یہ سانحہ ایسا کہ جس کا مداوا ناممکن ہے مگر آپ کے کام کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا. اہل اردو ,اہل ادب اور بالخصوص پُرامن پاکستان نیٹ ورک ٹیم آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے.
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک