اسرار کاکڑ: فخرِ پاکستان، فخرِ بلوچستان

تعارف

بلوچستان کے قلعہ عبداللہ نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے اسرار کاکڑ نے دنیا کی معروف ترین یونیورسٹی، آکسفورڈ ، کے صدر منتخب ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ کہانی ان کے عزم و استقامت کی داستان ہے جو نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لئے باعث فخر ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

اسرار کاکڑ اپنے تیرہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے مقامی گاؤں کے اسکول سے شروع ہوئی۔ وہاں تعلیم کے حالات کچھ خاص نہیں تھے، لیکن اسرار کے حوصلے بلند تھے۔ بعد میں میٹرک اور انٹر کی تعلیم کے لئے انہوں نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد اور لاہور کا رخ کیا۔

اعلیٰ تعلیم کا سفر

اعلیٰ تعلیم کے لئے اسرار نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ایبرڈین سے امتیازی نمبروں کے ساتھ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اسرار نے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے لاء ڈیپارٹمنٹ سے ڈی فل کرنے کا فیصلہ کیا اور ابھی وہ وہاں ہی زیرِ تعلیم ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کا صدر منتخب ہونا

آکسفورڈ یونیورسٹی کے صدر منتخب ہو کر اسرار کاکڑ نے ایک نیا تاریخی سنگ میل عبور کیا۔ ان سے پہلے بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو افراد، محترمہ بے نظیر بھٹو اور احمد نواز، آکسفورڈ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔

مستقبل کے منصوبے

اسرار کاکڑ آکسفورڈ جیسے پلیٹ فارم کو پاکستان خصوصاً بلوچستان کے درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور علمی مکالمے اور تحقیق کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوگی کہ اس عالمی پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستان اور بلوچستان کی مشکلات کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور ان کے حل کے لئے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

نوجوان نسل کے لئے پیغام

قلعہ عبداللہ جیسے چھوٹے علاقے سے آکسفورڈ تک کا سفر اسرار کاکڑ کے بلند جذبے اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ کیسے عزم و ہمت انسان کو بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ اسرار کی کامیابی دیگر نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے کہ اگر انسان کا جذبہ اور مقاصد بلند ہوں تو دنیا کی کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

اسرار کاکڑ کی کہانی ہر اس نوجوان کے لئے ایک پیغام ہے جو اپنے مستقبل کے بارے میں خواب دیکھتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کامیابی کا سفر محنت اور عزم سے ہی طے ہوتا ہے اور اگر ہمارے مقاصد بلند ہوں تو کوئی بھی رکاوٹ ہمارے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ بس ضروری یہ ہے کہ ہم کبھی مایوس نہ ہوں، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں، محنت کا دامن تھامے رکھیں۔