زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ انتہاپسندی کو روکنا اور اس سے نمٹنا صرف پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ یہ ادارے فوری خطرات کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن صرف ان پر انحصار کرنا کافی نہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرے اور کمیونٹی کا کردار بھی انتہاپسندی کو ختم کرنے میں بہت اہم ہے۔

دنیا کے کئی ممالک نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ کمیونٹی کی مدد سے ہی مستقل اور بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انڈونیشیا میں "ناہدت العلماء” نامی تنظیم امن اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے اور انتہاپسند خیالات کا مقابلہ کرتی ہے۔ برطانیہ میں "چینل پروگرام” اسکولوں، مقامی رہنماؤں اور مذہبی اداروں کے ساتھ مل کر ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو انتہاپسندی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ مثالیں دکھاتی ہیں کہ کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے سے بڑے اور مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں بھی اسی طرح کے اقدامات شروع ہو چکے ہیں۔ "پیسفل پاکستان” کے ذریعے امن، برداشت، اور مکالمے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں "صباؤون” منصوبہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو کسی بھی وجہ سے انتہاپسندی کی طرف مائل ہو گئے ہوں۔ یہ منصوبے ان افراد کو دوبارہ معاشرے کا مفید شہری بننے میں مدد دیتے ہیں۔

پاکستان میں انتہاپسندی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیں اپنی کمیونٹیز کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اساتذہ، مذہبی رہنما، اور سول سوسائٹی کے افراد انتہاپسند خیالات کو بدلنے اور امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے پلیٹ فارم بنانے ہوں گے جہاں لوگ بات کر سکیں اور اپنے مسائل کا حل نکال سکیں۔

آخر میں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ انتہاپسندی کے خلاف لڑائی صرف پولیس اور سیکیورٹی کا کام ہے۔ اس میں ہر شہری کا کردار ضروری ہے۔ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو ہم اپنے معاشرے کو محفوظ، پرامن اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔