باوفا بلوچ روشن پاکستان کے ضامن

دنیا میں موجود ہر قوم اپنی کسی خوبی کی بدولت خاص پہچان کی وجہ سے جانی جاتی ہے اور اس پہ فخر بھی کرتی ہے اور نسل درنسل اس کا پرچار بھی کرتی ہے۔اسی تناظر میں بلوچ قوم اپنی وفا، خودرای اور مہمان نوازی کا بھرم رکھے ہوئے ہے جس کی ایک اہم تاریخ ہے کہ اس قوم نے کبھی دغا نہیں دیا اوراپنے عہد کی ہمیشہ پاسداری کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بلوچ قوم اور بلوچستان کے حقیقی نمائندے کہنے والے جو کہ پاکستان سے باہر خود آسائشوں سے لیس زندگی گزار رہے ہیں، وہ بلوچ اقدار کو کیسے پامال کر کے اس قوم کے لیے بدنامی حاصل کر رہے ہیں۔ بہت تلخ حقیقت ہے کہ کس طرح ان نام نہاد رہنماؤں نے بیرونی آقاؤں کے ٹکڑوں پہ پلنے کی خاطر کس کس حربے سے قوم کو زچ کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح یہ سادہ لوح عوام کو دوسرے لوگوں سے متنفر کرنے اور دوریاں پیدا کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں مختلف قسم کے القابات جیسے کہ غاصب حکمران ،ادارے اور نسل کش سوچ سے نوازتے ہیں جو کہ سراسر بد نیتی پہ مبنی ہیں۔

اس کے برعکس اگر تاریخ پہ نظر دوڑائی جائے تو مشاہدے میں بات واضح دلیل کے ساتھ عیاں ہے کہ بلوچ قوم کی نمائندگی سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی،عدالت عظمی و عالیہ، قومی و صوبائی سطح تک کے سرکاری اداروں میں کلیدی پوسٹوں سے نچلے درجے کی سیٹوں اور دیگر جگہوں پہ موجود تھی اور ابھی بھی ہے۔ صدر پاکستان،وزراء اعظم، سینٹ کے چیئرمین، وفاقی وزراء،گورنر، وزراء اعلی، صوبائی وزراء آرمی چیف، چیف جسٹس، مختلف سرکاری محکموں کے سیکرٹریزو سربراہان،غرضیکہ کوئی شعبہ کوئی نشست ایسی نہیں جہاں بلوچ قوم کی نمائندگی کرنے والوں کے ہاتھوں پاکستان اور بالخصوص بلوچ قوم کی تقدیر بدلنے کا موقع نہ ملا ہو۔ کوئی شک نہیں جن افراد کو موقع ملا ان کی اکثریت نے ملکی و غیر ملکی سطح پہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ملک کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کا نام روشن کیا۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں موجود جامعات، کالجز، سکول اور مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ زیر تعلیم ہیں سائنس، آرٹس، میڈیکل، انجنئیرنگ، ووکیشنل و تکنیکی تعلیم، دینی تعلیم، نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ملکی وا غیر ملکی سطح کے مقابلہ جات میں نمایاں مقام حاصل کرنا بلوچ قوم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربلند کر رہے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی ایک اکثریت سمندرپار پاکستانی کے طور پہ بیرون ملک مقیم ہیں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی کارکردگی  سے دنیا کو محو حیرت کیے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی طور پہ بھی انتہائی ملنسار، خوش اخلاق اور اپنی روایات کی عکاسی کرتے لوگ ہر سمت نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم کے علاوہ ہزارہ، پشتون، سندھی، پنجابی سمیت دیگر اقوام کے علاوہ عیسائی، ہندو، سکھ اور مذاہب سے منسوب نفوس بستے ہیں جو بلوچ قوم کی طرح بلوچستان اور پاکستان سے اپنی محبت کا دم بھرتے ہیں۔  

اس کے علاوہ بلوچستان کی سرزمین سے ملنے والی قدرتی وسائل کی رائلٹی بروقت ملتی ہے اور حتی الامکان کوشش رہی ہے کہ عدل و انصاف برقرار رہے۔ اسی طرح اگر باعلی تعلیم کی بات کی جائے تو پاکستان کی ہر یونیورسٹی کے تقریبا ہر شعبہ میں بلوچستان کے طلبہ زیر تعلیم ہیں ان طلبہ کو مقامی طلبہ کی نسبت خصوصی رعایت، سہولیات اور مراعات حاصل ہیں کہیں پہ انہیں لسانی و صوبائی تعصب جیسی مشکلات کا نہ سامنا ہے بلکہ نہایت کشادگی سے خوش آمدید کیا جاتا ہے اور وہ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان سے اور بلوچ قوم سے پورے پاکستان سے لوگ خوشدلی سے کاروبار کرتے ہیں اور اس سرزمین پہ اپنی خدمات دینے کے لیے آتے ہیں چاہے بلوچستان کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے نگہبانی کے فرائض  دینے کے لیے فوج ہو یا ایف سی ہویا پولیس ہویاانسدادمنشیات ہو یا انسداد دہشت گردی کا شعبہ ہو ، سول بیوروکریسی،  ہر سطح کی تعلیم کا شعبہ ہو، کاروبار ہو، کان کنی ہو، حجام ہو، تعمیراتی کام ہوں اس کے لیے مزدور ہوں، قدرتی آفات کی صورت میں رضاکارانہ خدمات سے سرشار، حتی کہ ہر سطح پہ ہر طرح سے خود کو پیش کیا۔ بلوچستان کو معاش کی تلاش کی سرزمین سمجھ کے بلوچ بھائیوں کے لیے آئے مگر بدمعاشوں کے سپرد کر دیا گیا۔ رزق کی خاطر ہجرت کرنا اپنے عزیزوں، بیوی بچوں، والدین، بہن بھائیوں اپنے علاقوں کو چھوڑ کے آنا کتنی قربانیاں ہیں اور یہاں پہ آ کے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خود ہی سوچیں جو آپ کو، آپ کے گھر کو اور آپ کے گھر والوں کی عزت ناموس کے تحفظ کی خاطر ہر طرح کی قربانی سے دریغ نہ کرے تو اس کیا بے ےارو مددگار چھوڑ دینا چاہیے بے گوروکفن اس کی لاش چھوڑ دینی چاہیے؟ بلوچ قوم تو باوفا ہے اپنے عہد کی پاسدار ہے مہمان نواز ہے تو کیسے مہمان جو اللہ کی رحمت گنے جاتے ہیں ان کو بے آسرا لہو لہان جانے دے سکتے ہیں؟۔ نہ یہ اسلامی اقدار کے مطابق ہے نہ ہی بلوچ اقدار کے۔ آنے والی نسل کو کیا منتقل کرین گے یہ داغدار اثاثہ ؟ چند نامرادوں کی بدولت اتنی عظیم قوم کا تشخص اور شاندار ماضی نہیں کھویا جانا چاہیے۔ بھلا یہ کیسے سرمچار ہیں جو قوم کو جگہ جگہ شرمسار کیے پھرتے ہیں۔ یہ بلوچ قوم کی پہچان اور تشخص کا براہ راست مسئلہ ہے۔ ایسے بے شرم، بے حیا اور ملک و قوم کی پہچان کو خراب کرنے والے مکروہ چہرہ، کرائے کے قاتلوں اور بھیانک جرائم کے مرتکب عناصر کو بلوچ قوم نہ اپنا رہنما مانتی ہے نہ تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی کسی صورت قابل قبول سمجھتی ہے۔ یہ ایسے کسی ماہ کے رنگ کو قدر سے نہیں دیکھتے جسے گرہن کا رنگ لگا ہو۔

اب ذرا اک نظران کے کالے کرتوتوں پر ڈالتے ہیں جو بلوچ قوم کا نمائندہ رہنما ہونے کا دعوی کر تے نہِیں تھکتے۔ اللہ نذر بلوچ، حربیار مری، براہمداغ بگٹی، بشیر زیب، میر یار بلوچ اور دیگر خود کو بلوچ کہلواتے ہیں مگر بلوچوں کی سر زمین پہ دہشت گرد وتخریبی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، فری بلوچستان موومنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ نیشنلسٹ آرمی سمیت دیگر تنظیمیں بنا کے بیٹھے ہیں جو بھارت سمیت دوسری اسلام اور دشمن قوتوں سے فنڈز، تربیت، اسلحہ اور متعلقہ سہولیات لیتے تاکہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کے امن اور ترقی کو تباہ کیا جا سکے اور فتنہ پروری کی نرسریاں کھول سکیں۔ سکول ،کالج ،مسجد ،مدرسہ ،بازار، سرکاری املاک، قومی سلامتی کے اداروں کے اہلکاران اور حساس تنصیبات،سول بیوروکریسی،محب وطن عام بلوچوں کو جاسوس اور مخبر کہہ کر قتل کرنا، مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھنااورغیربلوچی ہونی صورت میں موقع پہ گولی مارنا، ریلوے، شاہراہیں سب کو بم دھماکوں اور دیگر دہشت گردی کے آلات سے نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ منفی پروپیگنڈا کرنے کے لیے آشوب پبلیکیشنز، ہکل میڈیا، ماہنامہ اسپر، درشان میگزین،بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے بیٹھ کر سوشل میڈیا سے رہنماؤں کے اکاؤنٹس اور مریدین کے جعلی اکاؤنٹس، اسرائیلی تھنک ٹینک میمری MEMRI پہ خود ساختہ مصنف بن کے تحقیق کے نام پہ تخریبی مضامین شائع کرنا، حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو اپنے تعاون کی پیشکش کرنا نام نہاد آزادی کے حصول کی خاطر بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو مدد لینے کے لیے خط ارسال کرنا، پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھنے کا خدشہ ظاہر کرنا س پہ باقاٰعدہ اشتہاری مہم چلانا، پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ تیار کرنا، اسرائیل کے ایران پہ حملے پہ خوشی کا اظہار کرنا، ان کے بڑوں پاکستان میں بلوچ کا سکونت اختیار کرنا قحبہ خانے میں رہنے کے مترادف ٹھہرانا، بلوچ کو پاکستانی کہنا یا سمجھنا بلوچ کی توہین گردانا، ملک اور بیرون ملک آزادی کے نام پہ جلسے جلوس نکالنا، پاکستان کی ساکھ کو نیچا کرنے کے چکر میں خود ساختہ کہانیوں کی فلمیں بنا کلر ایوارڈز اور فنڈنگ لینا، کیاکیا گل نہیں یہ کھلا رہے ہیں۔ یہ کوئی وفا شعار، قومی غیرت و حمیت والی قوم کیسے برداشت کر سکتی ہے جس طرح ان دہشت گروں نے  بدتمیزی، بد اخلاقی، بد قماشی اور بدتہذیبی کا طوفان اٹھا رکھا ہے۔ ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔

 کبھِی دیکھا ہے کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں لوگوں نے بلوچوں کو لسانی و صوبائی تعصب کی تنگ دل عینک سے دیکھا ہو یا اس کی عزت ناموس یا جان کا ضیاع کیا ہو؟ کیا وہ یہ سب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیا؟ کیا وہ تعداد میں تھوڑے ہیں؟ انہوں نے لاشیں اٹھا کے بھی کبھی بلوچ قوم گالی دی ہو یا چڑھ دوڑے ہوں؟ بھلا ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی ایک وجہ ہے کہ وہ بلوچ قوم کو وفادار، ملنسار، امن پسند اور مہمانوں کی عزت والے سمجھتے ہیں وہ انہیں کبھی بھی دہشت گرد نہیں سمجھتے ورنہ کون اپنے لالوں کو اپنے سے دور گھمبیر دہشت گردی کے باوجود بھیجے اور اپنے سہاگ اجڑنے، اپنے بچوں کو یتیم ہونے کا خطرہ مول لے۔ اب یہ بلوچستان میں بسنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ انکی قربانیوں کا تحفظ کرے اور شرپسندوں کو ایک لمحہ بھی وہاں نہ ٹکنے دے۔ اولاد سے بڑھ کے کوئی اثاثہ قیمتی نہیں جو پاکستان بھر سے بشمول بلوچ قوم کے بلوچستان پہ نچھاور کر رہے ہیں۔ ماؤں کی گودوں کا اجڑنا معمولی نہیں انسانی خوں اتنا ارزاں نہیں۔     

بلاشبہ پاکستان کے ہر صوبے کو اپنی نوعیت کے مختلف آزمائشوں اور چیلنجز کا سامنا ہے چاہے وہ کیسے بھی ہیں مگر صبر اور مناسب مثبت حکمت عملی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منفی رویوں، گمراہ کن پروپیگنڈا، جھوٹی خبروں، تخریبی کاروائیوں ، دہشت گردی، اسلام پاکستان دشمن قوتوں کا آلہ کار بننا اور اپنے گھر اور قوم کو ہی نقصان پہنچانا، نوجوان نسل کو ورغلانا ، مایوسی کی طرف رغبت دلانا، ملکی و صوبائی انفراسڑکچر کو تہہ و بالا کرنا، دیگر قوموں کوہی محض لسانی تعصب کی بنیاد پہ نشانہ بنانا بلکہ اپنی قوم کے فرض شناس افسران و دیگر کو بھی نہیں چھوڑنا، ناحق خون سے اپنے ہاتھ رنگنا، ملک و قوم کو عالمی نقشہ پہ دہشت گرد کی پہچان دلوانا، مکروہ اور ریاست مخالف دھرنےاورجلسے جلوس نکالنا، کیا یہ سب بلوچ قوم، بلوچستان اور پاکستان کی خدمت ہے؟ کیا یہ روشن نامی کا رستہ ہے؟ کیا یہ جنت کی جستجو ہے؟ کیا یہ ملک اور قوم کی ترقی کی راہ پہ گامزن کرنا ہے؟

ہیجان انگیزی اور مایوسی مسائل کا حل ںہیں ہے۔ بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں کئی دہائیوں سے موجود ہیں جن کے اراکین صدر پاکستان، وزرائے اعظم، وفاقی کابینہ کا حصہ،وزرائے اعلی بنتے آ رہے ہیں جو بلوچستان کی نمائندگی ہرسطح پہ کرتے ہیں اور صوبہ کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی میں اپنا کلیدی کردارادا کرنے کا موقع پاتے ہیں۔ جمہوریت کو رستہ دینے اور تقویت پہنچانے کے لیے جمہوری راستے ہی اپنانا ہوں گے جس میں ہر فرد کو اپنے حصے کا دیاجلانے کا بھرپورموقع ملتا ہے۔ بندوق اٹھانے، دھونس دھاندلی اور کسی بھی قسم کا تخریبی حربہ آزمانے سے خون خرابہ، تلخیاں اور دوریاں بڑھتی ہیں اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔لہذا ایک دوسرے کے وجود، رائے اور سوچ کا احترام کرنا چاہیے۔ بلوچستان میں امن قائم ہونے سے سرمایہ کار بڑھے گی، ترقی وخوشحالی کے اشاریوں میں مضبوطی آئے گی۔ نیک نامی کی وجہ سے ملک اورصوبے کی معیشت میں استحکام آنے سے اعتماد کی ایک نئی فضا قائم ہو گی۔ سماجی ومعاشرتی مثبت تبدیلیوں میں تیزی آسکے گی اور منفی رویوں و رجحانات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ قانون کی بالا دستی کی بدولت دہشت گردی، فتنہ پروری اورلاقانونیت کا خاتمہ عمل میں آ سکے گا۔ اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں بسنے والی تمام اقوام آپس میں مکمل یکجا ہو جائیں سیسہ پلائی دیوار بن کر دہشت گردوں انکی تنظیموں ان کے حمایتیوں کی حوصلہ شکنی کریں نام نہاد لیڈران کا احتساب کریں۔ ہر قسم کے تعصب کو دیوار پہ دے ماریں۔ نفرت کے بیج بونے والوں کو پھلنے پھولنے نہ دیں۔ منفی پروپیگنڈا کا زبردست جواب دیں۔ اسلام اور بلوچ اقدار کی پامالی کرنے والوں کے خاتمے میں ریاستی اداروں کی ہر طرح سے مدد تعاون کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور بلوچستان کو پرامن بنا کر اپنی آِئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔