بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے سازشی حربے: ایک معدوم مقصد کے لیے نوجوانوں کا استحصال گزشتہ کچھ عرصے سے چند انتشار پسند اور تخریب کار عناصربلوچستان کے میدانوں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والی بلوچ عوام کی حقیقی و ترقی پسند سوچ کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما […]
بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے سازشی
حربے: ایک معدوم مقصد کے لیے نوجوانوں کا
استحصال
گزشتہ کچھ عرصے سے چند انتشار پسند اور
تخریب کار عناصربلوچستان کے میدانوں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والی بلوچ عوام کی حقیقی و ترقی پسند سوچ کو یرغمال بنانے کی
کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما پر کام کرنے والے یہ دہشت گرد، متفرق سازشی حربوں اور مکّارانہ
چالوں سے کام لیتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملے کرتے ہیں اور نوجوانوں کو اپنے
ناپاک عزائم کے حصول کی جدوجہد میں شریک
ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ پہلے پہل یہ
منحرف عناصر اپنے کٹر جارحانہ حربوں پر انحصار کرتے تھے مگر اب انھوں نے اپنی توجہ ایسے حربوں کی جانب مبذول کر لی ہے کہ
جن سے نوخیزاور غیرمستحکم اذہان کو اپنے ریاست مخالف مقاصد کی جانب راغب کیا جا
سکے۔
ان دہشت گردوں کی بنیادی حکمت
عملی یہ ہے کہ یہ گروہ نظام کی کمزوریوں سے فائده اٹھا کر اس نظام کو انہدام کی طرف
لے جانا چاہتے ہیں ۔ سوشل میڈیا، ادب، گروہی اجتماعات اور طلبہ تنظیموں جیسے مختلف
النوع وسائل کو بروئے کار لا کر یہ دہشت گرد گروہ، نوجوان اذہان کو اپنے مہلک جال
میں پھنسانے کے لیے متفرق حربے استعمال
کرتے ہیں۔ ان حربوں میں نظریاتی عقیدہ بندی، انسانی ہمدردی کی آڑ میں فریب و
سازش اور بہتر مستقبل کی جھوٹی یقین
دہانیاں شامل ہیں۔ وہ ان مختلف حربوں سے کام لیتے ہوئے پُر عزم نوجوانوں کو عسکریت
پسندی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں جس کا انجام
اکثرانتہائی المناک ہوتا ہے۔
” یہ دہشت گرد گروہ،
نوجوان اذہان کو اپنے مہلک جال میں پھنسانے
کے لیے متفرق حربے استعمال کرتے ہیں۔ ان حربوں میں نظریاتی عقیدہ بندی،
انسانی ہمدردی کی آڑ میں فریب و سازش اور
بہتر مستقبل کی جھوٹی یقین دہانیاں شامل ہیں۔ وہ ان مختلف حربوں سے کام لیتے ہوئے
پُر عزم نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں جس کا انجام اکثر
انتہائی المناک ہوتا ہے۔ "
ان تمام کوششوں اور
اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جو حکومتِ پاکستان اس خطے کے بنیادی تعمیری
ڈھانچے اور معاشی صورت حال کو بہتر بنانے
کے لیے اٹھا رہی ہے، یہ دہشت گرد گروہ محرومیوں اور شکایات کو ترغیب و شمولیت کا
آلہ کار بناتے ہوئے نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے بغض و عناد پر
مبنی سوچ کی نظریہ آموزی کرتے ہیں بلکہ وہ چین
پاکستان اقتصادی راہداری( سی پیک) جیسے ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی حد تک
چلے جاتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد صوبے کی ترقی اور محصولات میں اضافہ کرنا ہے۔
بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے کوشش و محنت کرنے کی بجائے، عسکریت پسندوں کی
جانب سے ایسے ضرر رساں حملے واضح طور پر بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی بنیادیں
کھوکھلی کرنے کے مذموم ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
"بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے کوشش
و محنت کرنے کی بجائے عسکریت پسندوں کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں پر حملے، واضح طور
پر بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مذموم ارادے کو ظاہر
کرتے ہیں۔ "
یہ امر انتہائی تشویش ناک
ہے کہ ان عسکریت پسند گروہوں نے مختلف تعلیمی اداروں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے
جہاں وہ تشدد کو تحسین آمیز اور بامقصد موت کو رومان زدہ انداز
میں پیش کرتے ہیں۔ پُرجوش جذباتی نوجوان جو شناخت اور مقصدیت کے متلاشی ہوتے ہیں،
وہ ان دہشت گردوں کی پُر فریب ترغیب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ دہشت گرد عناصر،
ان نوجوانوں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کو تشدد اور تخریب کی غلط راہ پر ڈال دیتے
ہیں۔ بلوچ عسکریت پسندوں کی اس اصلیت کا سب سے اندوہ ناک پہلو وہ المناک انجام ہے
جو ان عسکریت پسندوں کے چنگل میں پھنسنے والے نوجوانوں کا مقدر بنتا ہے۔ روشن اور
بہتر مستقبل کے جھوٹے وعدوں کی کشش اکثر کرب ناک اور تاریک اختتام پر منتج ہوتی
ہے۔ دہشت گرد اور علیحدگی پسند عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ان افراد کی اکثریت یا تو خود کُش حملوں میں یا
پھرسکیورٹی فورسز سے تصادم میں ماری جاتی ہے۔ صورتحال کو مزید اشتعال انگیز بناتے
ہوئے، یہ دہشت گرد ایسے افراد کو اکثر "لا پتہ افراد” کے
طور پر پیش کرتے ہیں تا کہ ان کے ریاست
مخالف بیانیے کو تقویت مل سکے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عوام کی حمایت اور
تائید حاصل ہو سکے۔
ودود
ستکزئی کی مثال لیجئے، جس کی بہن اپنے بھائی کو "لاپتہ شخص” مانتے
ہوئے، اسے آخری ممکنہ حد تک تلاش کرنے کی
کوشش کرتی رہی۔ ہاتھوں میں اپنے بھائی کی تصویر لیے اسے متعدد جلوسوں میں اپنے
بھائی کی واپسی کے لیے احتجاج کرتے دیکھا گیا۔ مگر آخر کار یہ آشکار ہوا کہ وہ مچھ
میں افواج پر حملہ کرتے ہوئے تصادم کے
نتیجے میں مارا جا چکا تھا۔اسی طرح ،کریم جان کا خاندان دعویٰ کرتا رہا کہ اسے
اغوا کیا گیا ہے، جب کہ درحقیقت اس نے مجید بریگیڈ کے فدائی خود کش بمباروں میں شمولیت اختیار کر
لی تھی اور گوادر کی بندرگاہ پر ایک بڑے حملے میں ملوث قرار پایا تھا۔
المختصر، بلوچ عسکریت
پسند تنظیموں کا یہ دعویٰ ہی بنیادی طور
پرجھوٹ اور پروپیگنڈا پر مبنی ہے ہے کہ ان
کی جدوجہد بلوچ عوام کو بااختیار بنانے کے لیے ہے۔ ان کے افعال و اعمال ان دعوؤں
کی تردید کرتے ہیں کیونکہ وہ در حقیقت بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے
ہیں۔ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہمارے نوجوانوں کا استحصال ایک تشویش ناک اور تباہ
کن حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ البتہ حکومتِ پاکستان پرتشدد اور عسکریت پسند عناصر کی بیخ کنی کیلئےسنجیدگی
اور تندہی سے کوشاں ہے۔ بہتر حفاظتی اقدامات ، سماجی و معاشی ترقیاتی منصوبوں اور مل
بیٹھ کر مسائل کے حل کے ذریعے حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہاں کے نوجوانوں کو تشدد
کے راستے سے دور رکھا جائے تا کہ بلوچستان کی ترقی، خوشحالی اور روشن مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک