بھیرہ كی بھروچی تہذیب 

بھیرہ کے نام سے وہ لوگ ضرور واقف ہوں گے جو موٹروے لاہور تا اسلام آباد سے بہت مانوس ہیں عوام الناس کی اکثریت بھیرہ قیام و  طعام پہ رکتی ہے اور یہاں موجود کھانوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ اگر انہیں معلوم ہو جائے اور تصور میں لائیں کہ یہاں سے چند کلومیٹر دور اسکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان جنگ ہو رہی ہو اور ہاتھیوں کو پہلی دفعہ اتنی تعداد میں شامل جنگ کیا جا رہا ہو تو شاید اک خوف کی فضا کا ادراک ہو اور آپ 25 سو سال پہلے کے دور میں یعنی کہ 326 قبل مسیح میں  خود کو پائیں گے حالانکہ اس مقام کو نام کے معنی تو بے خطر جگہ کے ہیں جو سنسکرت سے لیا گیا لفظ ہے۔ آپ یقینا ساکت ہو جائیں گے جب احساس اور وقت آپ کو اس دور کی گرداب میں لے آئے گا کہ اسکندر اعظم یونان سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے کنارے آباد شہر بھیرہ میں موجود ہو جو فاتح عالم ہو۔ تاریخ اس وقت تک خشک مضمون کی مانند ہی لگتی ہے جب تک اس دور میں خود کو اتار نہ لیا جائے ۔ بالکل یہ وہی سرزمین ہے جس میں راجہ پورس نے اپنے قدآور ہاتھیوں کی مدد سے اسکندر اعظم کے خلاف شدید مزاحمت کی اور اس کا سدباب کرنے کے لیے اسکندر اعظم نے راجہ پورس کے ہاتھیوں کی سونڈھوں کا اپنے پیادہ اور تیر انداز فوج کے ذریعے انتہائی مہارت سے کروایا اور وہ ہاتھی راجہ پورس کی فوج پہ چڑھ دوڑے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا سکندر اعظم کا مشہور گھوڑا بھی اسی جنگ میں مارا گیا مگر سکندر اعظم نے راجہ پورس کی بہادری کو سراہتے ہوئے اس کا علاقہ واپس کیا۔ پنجاب کے علاقے سے یہ اپنی نوعیت کی کسی بھی حملہ آور کے خلاف پہلی مزاحمت تھی جسے تاریخ دانوں نے نمایاں مقام دیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں اور تاجروں کا تانتا بندھا رہا 1519ء میں ظہیر الدین بابر 1757ء میں احمد شاہ درانی ، شیر شاہ سوری ، محمود غزنوی اور دیگر آ تے رہے پھر رنجیت سنگھ سے ہوتا ہوا برطانوی راج کے سپرد ہوا۔ بار بار حملوں کی زد میں آنا اور اس خاص بھروچی تہذیب کو ملیامیٹ کیا جاتا رہا ۔ ان تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر اس شہر کو دریائے جہلم کے مغربی کنارے سے مشرق کی جانب لا کر از سر نو بسایا گیا جس کا سہرہ شیر شاہ سوری کو جاتا ہے اس نے سڑکوں کے جال ، مینارے، بلند فصیلوں میں آٹھ دروازے لگا کے محفوظ بنادیا ۔ جن کی تفصیل سے کچھ دیر میں آپ آ گاہ ہوں گے۔

 بھیرہ کا قدیم نام چوب ناتھ نگر بھی رہا ہے ۔بھیرہ سرگودھا ڈویژن کے ضلع سرگودھا کی اک تحصیل ہے جو اسلام آباد سے لاہور کی جانب 183 کلومیٹر اور لاہور سے 207 کلومیٹر جبکہ سرگودھا شہر سے 57 کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہے۔اسکی آبادی 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہے جس میں ڈھائی لاکھ سے اوپر دیہی جبکہ 60 ہزار سے زائد شہری زندگی میں موجود ہے۔ کل 504 مربع کیلومیٹر پہ محیط یہ تحصیل 110 گاؤں اور 16 یونین کونسلوں پہ مشتمل ہے۔ 17 جولائی 2012ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اسے تحصیل کا درجہ دیا ۔ 

بھیرہ کو تاریخی ، معاشرتی اور ثقافت کے لحاظ سے بین الاقوامی سطح تک اہمیت حاصل ہے جس پہ کافی تحقیق ہو بھی چکی ہے مگر بہت زیادہ کی گنجائش ابھی تک باقی ہے ۔ بھروچی تہذیب کی طویل داستان ہے جسے کئی سال گزر جائیں گے بیان کرتے ہوئے مگر اس دھاک اپنی جگہ قائم ہے۔ تاریخ میں اس علاقے کو گزرگاہ اور تجارت کے مرکز کی بنا پہ نمایاں حیثیت دی جاتی تھی۔ بھیرہ لکڑی کے کام، تعمیراتی مواد اور طرز ، مہندی کی وجہ سے شروع سے مشہور رہا پھر رنجیت سنگھ کے دور میں یہاں ٹکسالی کا قیام عمل میں آیا اور سونے اور چاندی کے سکے تیار کیے جاتے رہے۔ اس شہر میں آٹھ دروازے جو کہ مختلف سمتوں میں واقع شہروں یا علاقوں کے نام پہ رکھے گئے جیسے لاہوری دروازہ ، کشمیری  ( چٹی پلی ) دروازہ، ملتانی (لالو والی)  دروازہ، چنیوٹی (چک والا) دروازہ، کابلی دروازہ، پیراں والا، لوہاراں والا ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خستہ حال ہوتے گئے لیکن ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ڈپٹی کمشنر کلفٹن ڈیوس کی سرپرستی میں مقامی ماہر تعمیرات دھر چند کوہلی کی مدد سے انکی از سرِ نو تعمیر ہوئی۔ مگر پھر آبادی میں نمو کی بدولت اور غفلت کا شکار ہونے کی وجہ سے صرف چار دروازوں کے آثار ہی باقی ہیں ۔  اسی طرح اس میں ذاتوں کی بنیاد پہ محلوں کے نام رکھے گئے ہیں جن میں محلہ پراچگان، محلہ خواجگان ، محلہ سیٹھیاں، محلہ انصاری اور محلہ کوہلیاں والا سمیت دیگر موجود ہیں ۔ اس کے علاؤہ یہاں کافی قدیمی حویلیاں بھی موجود ہیں جو اپنے اپنے دور کی طرز تعمیر کا ثبوت ہیں۔ ان میں نہایت دلکش لکڑی کا کام دروازوں،  کھڑکیوں اور بالکنیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو عمارتوں کو پر شکوہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آنکھیں مکمل یکسوئی کے ساتھ اس بہترین مہارت کے ساتھ کیے گئے کام پہ مرکوز ہو جاتی ہیں ۔ اور دیکھنے والے اس دور کے اندر چلے جاتے ہیں ۔ سرخ مٹی، چھوٹی اینٹوں اور چونے کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب رنگوں سے نہایت دلجمعی سے اسوقت کے لوگوں نے اپنے فن کا جادو جگایا ہوا ہے۔ بھیرہ میں موہیال خاندان جو کہ پورس کا خاندان تھا اس کے علاوہ ہندوؤں کی مرکزی ذات کھکرین کھتری کی ذیلی ذاتیں جن میں ساہنی، سیٹھی، آنند، سوری، کوہلی، بھاسن ، چڈھا ، سبھروال اور چندوک ، کے لوگ آباد تھے جبکہ مسلمانوں کے پراچہ، الٰہی اور حیات خاندان نمایاں تھے۔ بھیرہ میں چونکہ مسلمان ، ہندو اور سکھ رہائش پذیر تھے تو اس وجہ سے ان مزاہب کی عبادت گاہیں بھی کافی تعداد میں تعمیر ہوئی۔ جن مین جامعہ مسجد شیر شاہ سوری 1545 ء میں جس کی بنیاد رکھی گئی جو 2976 مربع فٹ کے احاطے پہ محیط ہے۔ اس میں 60 فٹ کی اونچائی پہ تین گنبد  مینار اور 18 سے 28 فٹ تک کی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ مسجد مغلیہ دور کی فن تعمیر سے بہت مشابہہ ہے اس کی اندورنی چھتوں پہ نہایت عمدہ طریقے سے نقش و نگاری کا کام کیا کیا گیا جو دل کو موہ لیتا ہے ۔ مسجد کے ساتھ میوزیم اور تحقیقی مرکز بھی قائم ہے جو محقیقین اور طلباء کے لیے بھیرہ کی تاریخ کے شواہد کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔1840ء میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی۔  اس کے علاوہ ہندوؤں کے چار مندر اور سکھوں کا ایک گوردوارہ باقی رہا جو بعد ازاں امامبارگاہ میں منتقل ہو گیا۔ ہندوؤں کی عبادتگاہ میں شیو ساتھن، شیو لنگ, جیا کرشیاں،شیوا مندر ناگیاں والا، چوپڑا خاندان کا باولی والا مندر موجود تھا جبکہ سکھوں کا چھٹیا گردوارہ بھی ان میں شامل تھا۔ سارے مزاہب کے لوگ نہایت امن و آشتی سے زندگی گزارتے تھے پھر تقسیم کے وقت ہندو اور سکھ ہجرت کر گئے ان کے بنائے گھر حویلیاں ادھر سے آنے والوں کو مل گئے 

مکین کون ہوا مکان کس کے تھے 

1881ء میں تجارت کی خاطر بھیرہ میں ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا لیکن اب وہ نہایت خستہ حالی میں موجود ہے جسے از سر نو تعمیر کر کے اس تہذیب کے گہوارے کو دینا تک متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر جارج اینڈرسن کے ہاتھوں 2 اپریل 1927ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو بہت ہی دلکش عمارت ہے۔

بھیرہ کی گلیاں اور دروازے اس میں چلنے والے کو دور قدیم میں لے جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ قدیم بھیرہ اب ضلع جہلم میں جبکہ بعد میں 1540ء  میں بسایا جانے والا شہر دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر ضلع سرگودھا میں واقع ہے۔ بھیرہ کی وجہ شہرت لکڑی سے کیا جانے والا کام ،کرافٹ، مہندی ، رضائیاں ، کھسہ، پھونیاں ، گڑ کی مٹھائی، وڑیاں ( دالوں اور گوشت پہ مشتمل خشک سالن ) ، پتیسہ، برفی  اور دور قدیم میں چاقو، خنجر، بھالے ، تیر ہیں ۔ اس دھرتی نے جو نام پیدا کیے

 ان میں بھیشم سنگھ ساہنی، امرناتھ ودیا لنکار ، بلراج ساہنی بالی ووڈ اداکار، بیربل ساہنی، شانتی سواروپ بھٹ نگر، معروف عالم دین پیرمحمد کرم شاہ الازہری سابق جج، احسان الحق پراچہ سابق وزیر خزانہ ، جے سی آنند فلم پروڈیوسر ، فلم سٹار شان کی والدہ فلم سٹار نیلو، ڈاکٹر محمد خالد بخش، شیخ انعام الحق پراچہ ، سکندر سلطان راجہ، ندیم افضل چن سابق وفاقی وزیر ، خاقان ساجد کہانی نویس ، ڈاکٹر مختار بھرتھ، بریگیڈیئر اظہار الحق گوندل شامل ہیں ۔بھیرہ میں ادبی، ثقافتی اور فنون لطیفہ سے منسلک بھی بڑے نام پیدا ہوئے جن میں مولانا غلام قادر چشتی، مولوی کرم الہی ، مولوی محمد حسین احمد آبادی، مولوی کرم الدین اظہر، مولوی قادر بخش، حافظ فضل کریم گوندل، سائیں آزاد ، ڈاکٹر منظور احمد منظور، بی بی مخفی، مولانا محمد سعید زین پوری، عبدالحق عبدی، اختر واصفی، مولانا ظہور احمد بگوی، غلام جیلانی باصر، مجید افضل پراچہ، استانی مریم ، محمد وارث ناچیز ، مولوی لال دین ،منشی خادم حسین ، فضل عظیم درد، سلیم بھٹی، میاں فضل الرحمان بسمل ، مرزا محمد منور، زلفی سید ، افضال غنی, خالد اقبال یاسر ، محمد وزیر اسیر، ریاض بابر سیالوی، ساغر نقوی، حسن حسرت جعفری ، محمود کاشف ، جاوید افروز ملک، ظہیر پراچہ، اکرم محمود، شاہدہ کاشی، برجیس ظفر ، صاحبزادہ احمد ندیم ، انتظار احمد اسد، ریاض حسین عامر، دبیر عاصم ، مرزا شبیر بھیروی، انعام سلیمی جبکہ موسیقی میں غلام فاطمہ لوک گائیک بھروچی تہذیب  ، امام بخش ظہور گائیک شاعر اداکار جو کہ مینا کماری ( مہ جبیں بانو) ، خورشید بانو اور ملیقہ مدھو والد بھی ہیں ، اقبال گاگے والا، پیر گیلانی (ستار نواز), سلطان عرف طانا، شہرام، میراں بخش ، محمد حسین گاگے والا اور مشرف حسین (طبلہ نواز) معروف ہیں۔ بھیرہ سے شائع ہونے والے اخبارات میں دوست ہند، نور الاسلام ، اخبار بصیرت،نور القمر، شمس الاسلام ، ضیائے حرم ، رسائل میں مفاہیم ، لالہء دل، فن زاد یادگار ہیں ۔اسی طرح تحریک محبان بھیرہ ادبی تنظیم کی 15 روزہ باقاعدہ نشست بھی ہوا کرتی تھی جس میں ادباء ،شعراء اور دیگر معززین آیا کرتے تھے۔

 بھیرہ میں موجود میانی کے علاقہ میں مشہور حویلی کرشن نواس کی حویلی نہایت دیدہ زیب طرز تعمیر سے مزین ، علاقے کی پہچان ہے۔ 1947 ء میں بھیرہ سے ہندوستان جانے والے وہاں کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور بھیرہ کو آج بھی اک خاص مقام حاصل ہے ۔ بھیرہ میں جامعہ غوثیہ بھیرہ شریف ہے جو علم و دانش کے فروغ میں مثالی کردار ادا کر رہی ہے۔ بھیرہ کی تاریخی طور پہ اہمیت کو تاریخی حوالہ جات کے طور پہ الیگزینڈر کنگھم کی کتاب Ancient Geography of India, چینی زائر فی شان کا 2ہزار سال قبل بھیرہ کا ذکر، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا اپنی کتاب تزک بابری میں ، یونانی تاریخ دان آریان اور جان برگز کا فرشتے میں بھیرہ کا نمایاں طور پہ ذکر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چند چیزیں قلیل وقت میں احاطہ کی جاسکتی تھیں وگرنہ اسکی تاریخ اور تمدن پہ لا محدود وقت چاہیے۔ لاہور والڈ سٹی کی طرح اگر اس خطے پہ کام کیا جائے تو اس علاقے کی ترقی اور اس متروکہ تہذیب کو دنیائے عالم میں متعارف کروایا جاسکتا ہے اور بین الاقوامی سیاحت کے لیے زبردست مقام بنا کے اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ پرامن پاکستان نیٹ ورک پاکستان کے  منفرد خوبی سے مزین ہر علاقے اور لوگوں کا تعارف جاری رکھے گی