جرات اور حب الوطنی کی علامت – اعتزاز حسن بنگش

7 جنوری 2014 کو، 15 سالہ اعتزاز حسن بنگش اپنے اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول ابراہیم زئی ضلع ہنگو کے باہر دوستوں کے ساتھ کھڑے تھے جب انہوں نے ایک مشتبہ شخص کو دیکھا جو خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ یہ منظر انتہائی خطرناک تھا اور اس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اعتزاز کے دل میں ایک غیر معمولی جذبہ ابھر آیا۔ ان کے ساتھی طالب علموں نے خوفزدہ ہو کر انہیں روکا اور التجا کی کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں، مگر اعتزاز نے ان تمام التجاؤں کو نظر انداز کر دیا۔

اعتزاز حسن نے نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بمبار کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک دلیرانہ اقدام تھا، جس کے پیچھے ایک عزم و حوصلہ اور اپنے ساتھی طلباء کی جانیں بچانے کی فکر شامل تھی۔ جب اعتزاز نے بمبار کو روکنے کی کوشش کی، تو حملہ آور نے اپنی جیکٹ میں موجود دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا، جس کے نتیجے میں اعتزاز موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ ان کی اس قربانی نے اسکول کے دو ہزار طلباء کی زندگی بچا لی۔

اعتزاز حسن کی اس قربانی کو میڈیا پر بھرپور پذیرائی ملی۔ لوگوں نے انہیں ایک حقیقی ہیرو قرار دیا اور ان کی بہادری کی داستانیں ہر طرف پھیل گئیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں لکھا جانے لگا کہ اعتزاز نے اپنی ماں کو رلا دیا، لیکن سینکڑوں ماؤں کو اپنے بچوں کے لئے رونے سے بچا لیا۔ یہ الفاظ ان کی قربانی کی وسعت اور اثر کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔

اعتزاز حسن کی قربانی نے پورے ملک میں ایک نئی تحریک پیدا کی۔ ان کی بہادری اور قربانی نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری قوم کے دلوں میں ایک نیا جوش اور عزم پیدا کیا۔ ان کا یہ قدم ایک مثال بن گیا کہ کیسے ایک نوجوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی حفاظت کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے۔

اعتزاز کی قربانی نے یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی اور ظلم کے خلاف جنگ میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ان کی بہادری نے لوگوں کو یہ سبق دیا کہ حقیقی ہیرو وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ ان کی کہانی آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن گئی اور ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حکومت پاکستان کی طرف سے اعزاز حسن کو ستارہ شجاعت سے نوازا گیا اور ان کو ھیرالڈ میگزین کی طرف سے  سال 2014 کی شخصیت (پرسن آف دی ایئر2014) قرار دیا گیا۔