خود ساختہ سرمچار کبھی نہ ہوئے شرمسار

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے

مگر تمہیں کیا پتہ کہ یہ کیا ہوتی ہے

جون سے اگست 2025ء اپنی کارستانیوں، تخریب کاروائیوں اور ملک دشمن سرگرمیوں کو خود ساختہ دلیرانہ اور نام نہاد آزادی کی تحریک بنا کر دہشت گردی کو فروغ دینے والے اپنے مجلہ سرمچار میں بلوچ لبریشن آرمی-بی ایل ایف نے پیش کیا۔ سوائے کھوکھلے دعوے ،پاکستان کی عوام اور ان کے نمائندہ محافظین کی تضحیک و توہین کے علاوہ کچھ مثبت سوچ یا بلوچستان کی عوام کی ترقی کی فکر موجود نہیں۔ بندوق اور بارود کے دلدادہ بلوچستان اور اس کی عوام کو امن دیںگے جو آئے روز بلوچ قوم کے لیے شرم کا باعث بن رہے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہندوستان سے براہ راست مدد مانگنے والے، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو متنازعہ بنانے اور انہیں ختم کرنے کے لیے بے پرکی اڑانا، بلوچ عوام کے قاتل سرمچار ہونے کا دعوی کرنے والے غیر انسانی سوچ کی حامل قوتوں کے ٹکڑوں پہ پلنے والے ان کے ہی آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب اور پنجابیوں کے بارے انتہائی مغلظات بکنا اور بے بنیاد الزامات لگانا جو کہ زمینی حقائق کے مکمل برعکس ہیں، بی ایل اے کا وطیرہ بن چکا ہے۔ پنجاب اور پنجابیوں نے بلوچستان میں امن قائم کرنے کی خاطر اپنے لالوں کا خون کا نذرانہ پیش کیا ہے اور ابھی بھی کر رہے ہیں ۔ان قربانیوں کو چند ٹکوں پہ بکنے والے نام نہاد سرمچار بھلا کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟بلوچستان میں بسنے والے محسن کش اور احسان فراموش نہیں وہ کسی بہکاوے میں نہ آئے ہیں نہ آئیں گے۔ یہ ان مٹھی بھر فسادیوں، خارجیوں اور وطن فروشوں کی خام خیالی اور دیوانوں کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں کہ لوگ ان کے باطل نظریات اور دہشت گردی سے متاثر ہو کے انہیں مسیحا سمجھیں گے۔۔ حق ہیمشہ غالب رہتا ہے جھوٹ پہ جتنی مرضی ملمع سازی کر لیں اس کے پاوں کبھی زمین پہ جمتے نہیں۔

ان کے فریب اور دھوکہ دہی کی حالت یہ ہے کہ ان کے سرغنہ اللہ نذر بلوچ اپنے خط میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور صدر یورپی کونسل اور دیگرسربراہان کو اپنی نام نہادآزادی کے حصول کے لیے مدد کی درخواست کرتے ہوئے بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کے بیان کرتا ہے کہ پاکستان نے بلوچستان پہ قبضہ کیا ہوا ہے اور یہاں پنجابیوں کی آبادکاری کر رہا ہے اور یہاں ظلم کرتا ہے۔ جو ایک سراسر جھوٹا منفی پروپیگنڈا اور بے بنیاد الزامات ہے کیونکہ اگر زمینی حقائق کو کریدا جائے تو یہ جاننے اور پہچاننے میں دقت نہیں ہو گی کہ آزادی کے نام پہ کس طر ح بی ایل اے سمیت دیگر فتنہ پرور دہشت گرد تنظیموں نی منظم جرائم کا ارتکاب کیا جس میں نا حق معصوم لوگوں کو کبھی جاسوس ،مخبر اور بلوچ قوم مخالف بنا کر پیش کیا گیا ان کا قتل کیا گیا گھروں اور کاروبار کو مسمار کیا۔ شاہراہوں کو بند کر کے بسوں اور دیگر گاڑیوں سے مسافر اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھے گئے اور بلوچ نہ ہونے کی صورت میں انہیں موقع پہ گولی مار دی گئی۔ اسی طرح گیس پائپ لائنوں، ریلوے لائنوں، سرکاری املاک،بینکوں ، حفاظتی چیک پوسٹوں، پولیس تھانوں، سرکاری افسران حتی کہ جو بلوچ تھے، شاہراہوں سمیت دیگر انفراسٹرکچر کو اڑا گیا۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں ترقیاتی کام چل رہے چاہے ان ظالموں نے انہیں تباہ کرنے کی بھی کو شش کی۔اس میں سی پیک کے تحت ہونے والے منصوبوں کو اور چینی انجنئیرز کو نشانہ بنایا جس کا بنیادی مقصد پاکستان اور چین کے مابین تعلقات کو خراب کرنا تھا مگر دونوں ممالک کے آپسی روابط اتنے مضبوط ہیں کہ دہشت گردوں اور درپردہ قوتوں کو ہر دفعہ ہزیمت اٹھانا پڑی۔ جورقم سالانہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کی جاتی ہے وہ بدقسمتی سے ان بدمعاشوں کی وجہ سے دہشت گردی کی روک تھام پہ خرچ ہو رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں نے نوجوان نسل کو ورغلانے کی خاطر مختلف ناموں سے چھوٹی موٹی تنظیموں کی ٹولیاں بنائی ہوئی ہیں جو نام نہاد انسانی حقوق کے افراد کو ملا کر احتجاج اور سوشل میڈیا پہ ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ جن میں ہندوستان ، افغانستان اور دوسرے ممالک سے جعلی اکاؤنٹوں سے جعلی خبریں اور افواہ سازی کا بازار گرم کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں جن میں بی ایل اے، بلوچستان لبریشن فرنٹ، فری بلوچستان موومنٹ اور دیگر کے سرغنہ پاکستان سے باہر بیٹھ کے بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا دم بھرتے ہیں اور یہاں کی غریب عوام کو لالچ دے کے چند باغیوں کو دہشت گردانہ کاروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ امن وعامہ کی صورتحال کو سبوتاژکر کے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو شدید نقصان ان دہشت گردوں نے پہنچایا۔ ان کی تخریب حرکات و سکنات کی بدولت خوف و ہراس کی فضاء قائم کی جس سے ہرطرح کے اعتماد کو شدید دھچکا لگا۔ کیا یہ آزادی کی جنگ ہے یا بربادی کی جنگ؟ کیا یہ بلوچستان اور بلوچ قوم کی خدمت ہو رہی ہے؟ کوئی ایک تعمیری کام بتا دیں جو ان لوگوں نے کیا؟ بم بارود کی بات کرنے والے تباہی مچانے کے علاوہ کچھ بھی آج تک بلوچستان کو نہیں دے سکے تو لوگ ان کو دہشت گرد ہی سمجھیں گے اور دھتکاریں گے ہی۔

بلوچستان میں باقاعدہ طور پہ عوام کی نمائندگی کرنے والے ادارے اور محب وطن جماعتیں اور افراد موجود ہیں جنہیں عوام ووٹ کے ذریعے منتخب کرتی ہے تاکہ وہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے قانوں سازی کرتے ہیں۔اسکے علاوہ وفاقی ، صوبائی اور مقامی سطح کے ساتھ ساتھ بیرون ملک تک ملازمتیں دی جاتی ہیں۔اگر کوئی تعصب ہوتا تو کیا ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے؟ حتی کہ پاکستان کی تقریبا تمام کلیدی نشستوں پہ بلوچ اور بلوچستان کی نمائندگی کے لیے براجمان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ان کو اپنے لوگوں اور علاقے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی تقدیر سنوارنے کے سنہری مواقع دستیاب رہے اور کئی ایک نے انتہائی محنت اور لگن سے دیے گئے اعتماد کو بحال بھی کرایا۔ اب خود ہی سوچیے کیا غاصب ذہن کسی کو اتنی آزادی دیتے ہیں؟اور جس نام نہاد آزادی کی یہ بات کرتے ہیں جس کے لیے انہوں نے بلوچستان کا امن تباہ کیا بلوچ اقدار کو پامال کر کے بدنامی لی ، اس کا ان کے پاس کیا جواز باقی ہے؟ یہ وہ حقائق ہین جن کا ان دہشت گردوں کے پاس جواب نہیں اور انہیں مسخ کر یہ دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن دنیا بھی ان کے کرتوتوں سے باخوبی آگاہ ہے اس لیے انہیں دہشت گرد ہی سمجھتے اور جانتے ہیں۔ان سب کو دیکھتے ہوئے مہذب دنیا ان کا ساتھ کیونکر دے گی جب یہ ظلم و بربریت، دنگا فساد، ملک کو توڑنے کی سازش، قتل و غارت اور بغاوت کرتے نظر آئیں۔

مجلہ سرمچار کے اسی شمارے میں بام نامی آپریشن کے تحت جو جو دہشت گردی کی کاروائیاں کی اور جاری رکھے ہوئے ہیں انتہا بڑھا چڑھا کر دیوانے کا خواب بنا کر بیان کیا گیا ہے۔ بام کا مطلب صبح نو ہے مگر ان کی حرکتوں سے یہ تاریکی کی دلدل میں جانے کا پھندہ ہی ہے جس کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے آپریشن بام میں تقریبا 600 حملے کیے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتنے پرامن ہیں اور انکی امن کے حوالے سے کیا ترجیحات ہیں۔ ایک ہزار سے اوپر سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل کا جھوٹا اور بے بیناد دعوی کیا گیا پاکساتانی فوج اور متعلقہ ادارے جدید اسلحے، تربیت اور انٹیلی جنس مہاروتوں سے لیس ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا ہے اسے یہ دہشت گردوں کا جتھہ کیسے پسپا کر سکتے ہے جسے عوام کی مکمل حمایت بھی میسر ہو۔ سب خام خیالی باتیں اور ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ پیش کیا جاتا ہے۔ جھوٹ اور دغا بازی سے بہادر عوام کبھی مرعوب نہیں ہوتے۔ لیکن یہ واضح ثبوت ہیں کہ ان دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو جانا جائے اور ان کا قلع قمع ہو سکے۔

اس کے علاوہ جو دہشت گردی میں گمراہ لوگ استعمال کیے گئے ان کو نہایت معتبر اور ہیرو بنا کے ان کی شخصیت کو فروغ دیا جاتا ہے جیسا کہ سمعیہ قلندرانی۔ اس نی کہاں کہاں کیسے کیسے بے گناہ لوگوں کو جان سے مارنے کی تربیت لی اور پھر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی اور کس طرح اس نے خود کو خود کش حملے میں جہنم واصل کیا۔ان کے خاندان اجڑے اور انکی تخریب کاروائیوں سے کئِی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ لوگ بھلا کیسے بلوچ قوم اور اس دھرتی کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں جن کا کام ہی بس خوان بہانا اور امن و عامہ کو متاثر کرنا ہے۔ اسی طرح اس شمارے میں پاک فوج سے منسلک من گھٹرت کہانیاں گھڑی ہوئی بتائیں جس کا بنیدای مقصد فوج کے تشخص کو خراب کرنا ہے مگر یہی فوج عوام کی نمائندہ ہے لہذا دہشت گردوں کی جان سے پھیلائی گئی دروغ گوئی پہ کوئی کان نہیں دھرتا کیونکہ جھوٹ کے سر پاؤں ہی ںہیں ہوتے۔ فج کی امن اور جنگ دونوں حالتوں میں کارکردگی سے سب مکمل طور پہ آگاہ ہیں۔لہذا ہندوساتن کے ان لے پالک دہشت گردوں کی کوئی اوقات اور بساط نہیں۔

بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں جتنا مرضی کھوکھلے دعوے کر لیں دنیا ان کو امن دشمن شیطانی جتھے سمجھتی ہے اور ان کے ارادے خاک میں ہی ملتے رہیں گے ان بے اعتباروں کی کسی بات پہ کوئی نہ کان دھر رہا ہے نہ دھرے گا ان کے آقا ہندوستان کو جو دھول پاکستان کی عوام اور فوج چٹائی ہے اس ک بعد وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا اور ہر روز سفارتی میدان میں اپنی پوزیشن مسلسل کھوئے جا رہا ہے۔ اسی بات سے ان دہشت گردوں کو بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ان کا کیا حال ہے ابھی بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لو کیونکہ جو درگت ان کے آقا کی ہوئی اس سے نہایت برا مقدر ان دہشت گردوں کا ہونا باقی ہے۔سیسہ پلائی دیوار سے ٹکراؤ ہمیشہ پاش پاش ہی کرتی ہے۔