دہشت گردی کا ایک اور مخفی چہرہ:                   بھتّہ  خوری، ہراسانی اور جرائم

دہشت گردی، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ایک کثیر الجہتی رجحان ہے جو مختلف شکلیں اور ہیئتیں اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم، عام طور پر عوام کو ان بہت سے چہروں میں سے صرف ایک چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ وه چہره ہے جو دہشتگردوں  کی پُر تشدد کاروائیوں کو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لاتا ہےاور انکے بھیانک افعال کو کسی حد تک اُ ن کے بیان کردہ مقاصد اور بیانیے سے جوڑتا ہے ۔ اتفاقاً بلکہ شاید افسوسناک طور پر، یہ اکثر بالکل وہی چہرہ ہوتا ہے جس کی تشہیر دہشت گرد اپنے بنیادی اور ثانوی سامعین کے لیے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایسی مقبول نمائندگی اکثر دوہرا مقصد پورا کرتی ہے، ایک جانب یہ متعین سامعین کو خوفزدہ کرتی ہے  (تشدد کے عمل کے ذریعے)  اور دوسری جانب دہشت گردوں کے لیے بھرتی (ان کے نظریے اور مقاصد کے ذریعے) کو یقینی بناتی ہے۔

"دہشت گردی کا واحد چہرہ جو عوام کوعموماً نظر آتا ہے،  وه چہره ہے جو دہشتگردوں  کی پُر تشدد کاروائیوں کو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لاتا ہےاور انکے بھیانک افعال کو کسی حد تک اُ ن کے بیان کردہ مقاصد اور بیانیے سے جوڑتا ہے ۔”

اگرچہ عام تاثر سے ماوراء ،  بم دھماکے اور پُرتشدد کاروائیاں ہی صرف ان دہشتگردوں کا واحد ہتھیار نہیں،  تاہم اِن میں دہشت گردی کے دیگر بہت سے چہروں کو نظرانداز کرنے اور چھپانے کا ایک مضبوط رجحان موجود ہے۔ ایسے ہی چہروں میں سے ایک چہره دہشت گردی  کا وہ  رجحان ہے جس میں بھتہ خوری،  ہراساں کرنا اور چھوٹے جرائم جیسی سرگرمیوں پر انحصار کرنا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیاں، اگرچہ عام طور پر مجرموں کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں،  لیکن اکثر دہشت گرد اور شدت پسند اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ان سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں ۔علاوه ازیں، اس  نوعیت کے جرائم میں  ملوث ہونا  اضافی فنڈنگ حاصل کرنے کیلئے دہشت گردوں  کی حکمت عملی کا ایک بڑا حصہ ہے ۔ اس سلسلے میں، پاکستان میں سرگرم انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اسی طرح کے ہتھکنڈوں پر انحصار کرتے ہیں۔ درحقیقت، ایسے بہت سے گروہوں کے لیے، مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے مالی فوائد کو ان کے بیان کردہ مقاصد اور مبینہ نظریات پر فوقیت حاصل ہے۔

نجی کاروباری مالکان سے بھتہ خوری اوران کو  ہراساں کرنا پاکستان میں دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں جیسے کہ فتنہ الخوارج  (جسے پہلے تحریک طالبان پاکستان کہا جاتا تھا) اور داعش  خراسان (ISKP) کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس طرح کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہوتے رہتے ہیں لیکن کم تشہیر کی وجہ سے یہ شاید ہی کبھی سرخیوں میں آتے ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ  بھتہ خوری اور پیسوں  کے لیے ہراساں کرنا، عام طور پر مجرمانہ فعل سمجھےجاتے ہیں اور انہیں دہشت گردی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ مجرمانہ نوعیت کے واقعات میں ان دہشتگردوں کی مسلسل شمولیت اس بات کی تلخ یاد دہانی ہے کہ یہ سرگرمیاں اب بھی دہشت گردوں کے طریقہء واردات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ تاہم، چونکہ بھتہ خوری کی اس طرح کی کارروائیاں  اتنی توجہ طلب نہیں ہوتی ہیں کہ وہ شہ سرخیوں پر چھا سکیں، اس لیے انہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ فتنہ الخوارج (FaK)  اور اس جیسے گروہوں کی مجرمانہ جہت بڑی حد تک ان کے وحشیانہ بم دھماکوں اور  پُر تشدد حملوں کے زیر سایہ ہے جو زیادہ ڈرامائی انداز میں لوگوں کو بتائے جاتے ہیں اور خاص طور پر میڈیا کی توجہ اپنی  جانب  کھینچتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے انکی سہولت کے مطابق، اس طرح کے حملے عوام کی توجہ صرف بظاہر بے ترتیب حملوں اور گروہ کے بیان کردہ انتہا پسندانہ نظریے کی طرف مبذول کراتے ہیں۔

" فتنہ الخوارج   (FaK)  اور اس جیسے گروہوں کی مجرمانہ جہت بڑی حد تک ان کے وحشیانہ بم دھماکوں اور  پُر تشدد حملوں کے زیر سایہ ہے جو زیادہ ڈرامائی انداز میں لوگوں کو بتائے جاتے ہیں اور خاص طور پر میڈیا کی توجہ اپنی  جانب  کھینچتے ہیں۔ "

عام تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے  اور عوام کو یہ بتانے کیلئے کہ یہ دہشت گردنظریاتی طور پر متحرک نہیں ہیں جیسا کہ یہ گروہ  دعویٰ کرتے ہیں، یہ امر ضروری ہے کہ عوام کی توجہ ایسے تمام گروہوں کی  بھتہ خوری، ہراسانی اور دیگر جرائم کی طرف مبذول کرائی جائے۔ یہ یاد رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ بعض حالات  میں، اس طرح کی مجرمانہ سرگرمیاں ان دہشتگرد گروہوں کی اصل وجہء حیات  ہوتی ہیں اور ان کے بیان کردہ مقاصد اور پیش کردہ نظریات عوام کو بہکانے کیلنے محض ایک پردہ ہے۔ ایسے گروہوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے کم دکھائی دینے والے لیکن اصلی چہرے کی طرف توجہ دلائی جائےتاکہ وہ تمام شہری، جو کسی بھی بنیاد پر ایسے گروہوں سے کچھ   ہمدردی رکھتے ہیں، وہ ان کاگھناؤنا چہرہ دیکھ سکیں اور ایسے عناصر سے دُور رہیں۔ الغرض، یہ حقیقت واضح ہے کہ ایسے گروہ  معاشرےکی پرامن ترقی میں  سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اسلئے ان کی بیخ کنی کرنا ضروری ہے۔