بلوچستان، ایسا صوبہ جہاں ایک نوجوان لڑکے کے لیے چیلنجز کم نہیں ہیں، اور ایک کھلاڑی کے لیے اس سے بھی زیادہ۔ گو کہ اس خطے نے ہاکی، باکسنگ، فٹ بال میں بہت سے بڑے نام پیدا کیے ہیں، لیکن انہیں دوسرے خطوں کی طرح سہولیات میسر نہیں آئیں۔ ان تمام حالات میں بھی یہ خطہ لیجنڈز پیدا کرنے سے محروم نہیں رہا اور یہ وہی جگہ ہے جہاں ایک اور لیجنڈ "شاہ زیب رند” نے جنم لیا۔ شاہزیب کی زندگی میں مالی مسائل بہت زیادہ تھے لیکن ان کے جذبے نے انہیں اپنے مقصد کی جانب گامزن رکھا۔ اس کے بے چین جذبے کو تعمیری کام میں لانے کے لیے، شاہ زیب کے خاندان نے ایک اہم فیصلہ کیا –آٹھ سال کی چھوٹی عمر میں، شاہ زیب کو مارشل آرٹس کا سفر شروع کروایا، اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ینگ ٹائیگرز اکیڈمی میں داخلہ لیا، جہاں اس کا بڑا بھائی پہلے سے تربیت لے رہا تھا۔ یہیں سے اس کے جنون کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے مارشل آرٹس کی دنیا میں بین لاقوامی سطح پر نماءندگی کا موقع ملا حال ہی دبئی میں منعقد ہونے والے 45 کراٹے کے مقابلے میں پاکستان کی نماءندگی شاہزیب رند نے کی، جہاں ان کا مقابلہ انڈین کیپٹن رانا سنگھ سے ہوا- اس مقابلے میں شاہزیب رند کی نمایاں کارکردگی نے انہیں جیت کے قلمدان سے نوازا- اس جیت کے موقع پر شاہزیب نے بلوچی لباس پہن کر پاکستان کا جھنڈا بلند کیا- اپنی جیت کے موقع پر شاہزیب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقابلہ امن کے فروغ کیلئے تھا، پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے ساتھ نہ کے دشمن- مارشل آرٹس کے شوق کے علاوہ، شاہ زیب نے تعلیمی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز سے بیچلر آف سائنس کی ڈگری بھی حاصل کی۔