لاپتہ بلوچ افراد: آدھے سچ اور جھوٹے الزامات پر  مبنی معمہ

پاکستان بالخصوص بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک متنازعہ موضوع بن چکا ہے جسے اکثر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ریاست مخالف بیانیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کی پیچیدگی ان مخصوص حالات میں مضمر ہے جن کے تحت افراد لاپتہ ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد ان کی گمشدگیوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کو عام طور پر تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں اور دور دراز اور نامعلوم مقامات پر رہائش پذیر  ہیں۔ دوسرے گروہ میں ایسے افراد شامل ہیں جو ذاتی وجوہات کی بنا پر یا روزگار کی تلاش میں اپنے گھروں کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن کبھی واپس نہیں آتے یا اپنے اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے ہیں۔ تیسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ریاست نے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

"پاکستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں بیانیہ قیاس آرائیوں اور الزامات سے بھرپُور ہے، جو سچائی کو جھٹلا رہا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لاپتہ افراد وہ ہیں جو رضاکارانہ طور پر عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ دیتے ہیں ، دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں یا اپنے اہل خانہ سے تمام روابط منقطع کر لیتے ہیں، اور بعد ازاں یہ لوگ مختلف جرائم یا دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکت کے بعد یا ان کاروائیوں میں ملوث ہونے پر  منظر عام پر آتے ہیں۔”

لاپتہ افراد کا مسئلہ   صرف پاکستان کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ ایک تقابلی جائزے کے مطابق  پاکستان میں رجسٹرڈ لاپتہ افراد کی تعداد جرمنی، بھارت، سری لنکا، برطانیہ اور امریکہ جیسی دیگر ممالک کی نسبت کافی کم ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں بیانیہ قیاس آرائیوں اور الزامات سے بھرپُور ہے، جو سچائی کو جھٹلا رہا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لاپتہ افراد وہ ہیں جو رضاکارانہ طور پر عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ دیتے ہیں ، دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں یا اپنے اہل خانہ سے تمام روابط منقطع کر لیتے ہیں، اور بعد ازاں یہ لوگ مختلف جرائم یا دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکت کے بعد یا ان کاروائیوں میں ملوث ہونے پر  منظر عام پر آتے ہیں۔  ایسے  لا پتہ افراد کی ایک کثیر تعداد غیر قانونی طور پر معاشی تارکین وطن کے طور پر ہجرت بھی کرتی ہے۔ جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن (سی او آئی او ای ڈی) نے جنوری 2024 تک 10,143 کیسز  درج کیے ہیں، جن میں سے 7832 کیسز کو حل کیا گیا ہے، جس کی کامیابی کی شرح 77 فیصد ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے 2772 کیسز کا اندارج ہوا، جس میں سے صرف 475 ابھی زیرِ تفتيش ہیں جبکہ باقی کیسز حل ہو چکے ہیں۔

"اگرچہ جبری گمشدگیوں کے کیسز کو فوری اور شفاف طریقے سے حل کیا جانا چاہئے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں کے درمیان فرق کیا جائے جو واقعی لاپتہ ہیں اور جو اس مسئلے کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔”

بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ پسماندہ بلوچ نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں، ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں جھوٹے وعدوں کے ذریعے دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ گروہ افراد کو بھرتی کرنے کے لئے غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسی دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بننے والے ان لاپتہ افراد  کو جبری گمشدگیوں کا شکار قرار دے کر ان کے نام نہاد ہمدرد ، ہماری ریاست کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے سلیم بلوچ اور گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس حملے میں ملوث کریم جان جیسے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح دہشت گردوں کو اکثر لاپتہ افراد ظاہر کرکے  ریاست اور اسکے اداروں کے خلاف جھوٹے الزام لگائےجاتے ہیں۔ پاکستانی جوابی حملوں میں ایرانی سرزمین پر بی ایل ایف کے عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے لاپتہ افراد حقیقتاً لاپتہ نہیں تھے بلکہ غیر ملکی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس چلانے میں ملوث تھے۔ مزید برآں، بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ ‘آپریشن مرگ بار سرمچار’ میں ‘لاپتہ’ قرار دیے گئے متعدد افراد  دہشت گردوں کے طور پر ہلاک ہوئے۔  اسی طرح کے مختلف واقعات ، جیسے سرحد عبور کرنے کی ناکام کوشش کے دوران گرفتار ہونے والا لاپتہ شخص، اور حال ہی میں گرفتار ہونے والے نصراللہ (مولوی منصور) جیسے دہشت گردوں کے بیانات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بہت سے لاپتہ افراد افغانستان میں ہیں، اور مختلف دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مل کر آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔اس طرح کے واقعات اس مسئلے کی کثير مملکتی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

پاکستان، بالخصوص بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جو آدھے سچ اور جھوٹے الزامات پر مشتمل ہے۔ اگرچہ جبری گمشدگیوں کے کیسز کو فوری اور شفاف طریقے سے حل کیا جانا چاہئے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں کے درمیان فرق کیا جائے جو واقعی لاپتہ ہیں اور جو اس مسئلے کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد سے متعلق سچائی کو عام کرکے  ہی ایسے دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔