محمد وسیم وزیرجونیئر – خود اعتمادی، عزم اور ہمت کی کہانی
محمد وسیم وزیرجونیئر – خود اعتمادی، عزم اور ہمت کی کہانی محمد وسیم جونیئر کا تعلق شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے سے ہے،جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی سال بہت سی مشکلات میں اور کٹھن گزرے۔ان دنوں میں شمالی وزیرستان کا علاقہدہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثر تھا اور یہاں کے باسیوں کو روزمرہ […]
محمد وسیموزیرجونیئر - خود اعتمادی، عزم اور ہمت کی کہانی
محمد وسیم جونیئر کا تعلق شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے سے ہے، جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی سال بہت سی مشکلات میں اور کٹھن گزرے۔ ان دنوں میں شمالی وزیرستان کا علاقہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثر تھا اور یہاں کے باسیوں کو روزمرہ کی زندگی میں سخت دشواریوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے وسیم کے لیے کرکٹ کھیلنے کا خواب ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔
وسیم کے بچپن میں ہر طرف خوف و ہراس اور غیر یقینی کی صورتحال تھی۔ بچوں کا اسکول جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا اور کھیل کے میدان تو بہت دور کی بات تھی۔ مگر وسیم کا عزم اور حوصلہ کبھی پست نہ ہوا۔ وہ چھوٹے سے میدان میں ٹیپ–ٹینس بال سے کھیلتا اور اپنی مہارتوں کو نکھارتا رہتا۔ اس کے پاس نہ تو جدید سہولیات تھیں اور نہ ہی کوئی مناسب تربیتی نظام۔
وسیم نے اپنی محنت جاری رکھی اور مقامی سطح پر اپنی کارکردگی سے سب کو متاثر کیا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ شمالی وزیرستان میں مزید ترقی کے مواقع محدود ہیں، تو اس نے صوبائی دارالحکومت پشاور کا رخ کیا۔ پشاور کا سفر بھی آسان نہیں تھا، مگر وسیم نے ہر مشکل کا سامنا کیا اور اپنے خواب کی تعبیر کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔
وسیم کی عہد اور عزم نے آخرکار کوچز اور سلیکٹرز کی توجہ حاصل کی۔ انہوں نے وسیم کی صلاحیتوں کو پہچانا اور اسے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں منتخب کر کےموقع دیا کہ وہ اپنی قابلیت کو بین الاقوامی سطح پر منوا سکے۔
آج وسیم جونیئر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ تینوں فارمیٹس یعنی ٹی 20، ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی شاندار کارکردگی نے نہ صرف انہیں بین الاقوامی سطح پر مقام دلایا بلکہ وزیرستان کے دوسرے نوجوان کھلاڑیوں کے بھی لیے مشعل راہ بنایا۔
محمد وسیم جونیئر کی کہانی ہر نوجوان کے لیے ایک سبق ہے کہ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا وقت جب وزیرستان میں دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی وجہ سے بم دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سننا معمول کی بات تھی،ایسے ماحول میں محمد وسیم نے اپنی محنت اور لگن سے ثابت کر دیا کہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ثابِت قدمی اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج وسیم کی کامیابی صرف ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے عزم و حوصلے کی داستان ہے۔