معاش کی تلاش اور بدمعاش

انسان اپنی اور اپنے قبیل کی نشوونما اور بہترین طرزِ زندگی کے حصول کی خاطر اذل سے معاش پانے کے لیے مسلسل تگ و دو میں رہا ہے تاکہ اپنا اور اپنی رعیت کا مستقبل محفوظ بنا سکے۔ اس کے لیے اسے اپنا وطن اپنے احباب اور اپنی مٹی کی خوشبو سے قرابت قربان کر کے دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے تاکہ تلاش معاش کا سلسلہ جاری رہے اور جہاں خاطر خواہ وسائل حاصل ہو جائیں وہیں سکونت اختیار کر لیتا ہے اور پھر زرمبادلہ کی اپنوں کی جانب ترسیل شروع کر دیتا ہے تاکہ جو ترقی اور بہترین زندگی کا خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہوتا جائے اور جب وہ دنیا سے رخصت ہو تو اسے تسلی ہو کہ وہ اپنے لواحقین کی زندگی کی لیے خاطر خواہ ترکہ چھوڑ کے جا رہا ہے۔ اپنا وطن اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے لیے جانا انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جو ناقابلِ بیان ہے مگر زندگی میں جمود نہ آئے اس لیے اس کے قدم رکتے نہیں اور اپنی خودداری کا دامن تھامتے ہوں مواقعوں کی سر زمین کی جانب کوچ کر جاتا ہے اور مزدوری شروع کر دیتا ہے اسلام میں مزدور کو نہایت عزت و وقار کی نظر سے دیکھا گیا ہے کہ جو ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ہاتھوں کے استعمال سے رزق حلال کی جستجو میں اپنی عمر اور دیگر وسائل صرف کرتے ہیں ۔

ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ھونے سے پہلے اس کی اجرت اسے دے دی جائے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کو مزدور کی یہ ادا اتنی بھا گئی اور اس کا محنت کرتے پسینے میں شرابور ہونا پسند آیا کہ اس کی اجرت کی فوری ادائیگی کا حکم صادر کر دیا گیا ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی چونکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں روزگار کی فراہمی کا مرحلہ نہایت کٹھن بنتا جا رہا ہے تو اسی بات کے پیشِ نظر مکین دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں کہ بہترین کمائی کا موقع مل سکے۔ اسی تناظر میں بلوچستان کا صوبہ جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، اسے اللہ نے قدرتی وسائل میں نمایاں وسعت دی ہے اس کی جانب دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچ قوم کی اعلیٰ اقدار کو دیکھتے ہوئے جاتے ہیں جو کہ اس سرزمین کے لیے ایک اہم شرف ہے کہ یہ کئی پردیسیوں کے گھرانوں کو پالنے میں نہایت معاون ثابت ہو رہا ہے۔

اس سلسلے میں پنجاب ، سندھ ، خیبرپختونخواہ سے نوجوان نسل بلوچستان میں مختلف ہنر سے وابستہ شعبوں میں جن میں تعمیرات ، حجام، کان کنی،ریل کی پٹڑی کی تعمیر و مرمت ، ماہی گیری و دیگر شامل ہیں، میں اپنی جوانی اور توانائی صرف کر رہے ہیں بلکہ بہت سے تو کئی سالوں سے وہاں سکونت بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔بلوچ قوم نے مہمان نوازی جو کہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، اس کا مکمل خیال کرتے ہوئے سب کو خوش آمدید کیا اور سلسلہ آج بھی جاری ہے جس سے باہمی محبت اور یگانگت کو تقویت ملی اور بے مثال تعلقات قائم ہوئے ہیں اور دائم رہیں گے۔

لیکن یہ آپسی پیار و احترام مٹھی بھر ذہنی توازن کا شکار، ملک دشمن عناصر کے آلہ کار، انتہا کے بے کار، خود ساختہ روزگار، وحشت و دہشت سے سرشار، ذہنی و نفسیاتی بیمار ، انسانیت سے بیزار، شیطانیت کا اقرار ، دنگا و فساد کا ہر دم پرچار، ابلیسی قیادت میں گرفتار ، جھوٹا پروپیگینڈا پھیلانے کے فنکار، دہشتگردی کے مرتکب مسلح جتھوں بلوچستان لبریشن آرمی ، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور دیگر شیطانی قوتوں کو کہاں برداشت ہوا اس لیے انہوں نے نہایت چالاکی سے بلوچ قوم کا نام استعمال کر کے ہر درجہ اس صوبے اور اس کے مکینوں کو اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا بھر میں گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کے بدنام کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے مگر باوفا ، باشعور اور باکردار بلوچ ان کے ہر حربے پہ منہ توڑ جواب دے رہے ہیں کہ تم نہ ہمارے نمائندے ہو نہ ہمارے نجات دہندہ ہو بلکہ شیطان صفت بلوچ اور بلوچستان دشمن قوتوں کے ہرکارے اور چیلے ہو جنہوں نے اس دھرتی کو کسی بھی حد تک نقصان پہنچانے کی کوئی کس نہیں اٹھا رکھی۔ تم اتنے ذہین ،قابل اور وطن دوست ہوتے تو دشمنوں کی گود میں نہ بیٹھے ہوتے اور ان کے مکروہ و غلیظ مقاصد کے ذرائع نہ بنتے ۔

بلوچستان کی معیشت اور اس علاقے کی پہچان بننے والے مزدوروں کا جس بے رحمی ،فرعونیت، درندگی سے یہ جتھے قتل کر رہے یہ ناقابلِ قبول ہے کاش کہ تمہیں پتہ ہوتا جس طریقے سے بزدلانہ فعل سرزد کرتے ہوئی تم لوگوں نے سوئے ہوئے نوجوان مزدور جو حجام تھے، کے چیتھڑے اڑائے جو کہ اپنے گھروں کے واحد کفیل تھے کہ ان کی عید اور خصوصاً قربانی کی عید پہ جو صف ماتم بچھا کر ان کی ماؤں کو جو دکھ دیا ، دیکھ سکتے ، سمجھ سکتے ، خون میں لت پت ان جوانیوں کے خواب اور وطن عزیز کی خدمت کا جذبہ دیکھ سکتے مگر کیسے؟ کیونکہ بد ہدایتوں کو اللہ انہی کی سوچ و فعل میں اندھا کر دیتا ہے اسے توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ انسان اور انسانیت کو دیکھ سکے ۔ زلف تراش درحقیقت تہذیب زلف سے معاشرہ خوبصورت بناتے ہیں مگر بد تہذیبی کے مرید کیا جانیں ، وہ ذکر معاش فکر معاش کو بدمعاش بن کے حقیر سمجھتے ہیں اور بے چون وچرا ہر غیر انسانی سلوک سر انجام دینے سے نہیں جھجکتے اور انتہائی ڈھٹائی سے سب کچھ کر بیٹھتے ہیں۔ ان بے ایمانوں ، بدمعاشوں، شیطان کے چیلوں کو نہ بلوچستان نہ بلوچ نہ اسلامی جمہوریہ پاکستان چھوڑے گا ان بھیڑیوں کو ختم کر کے ہی دم لیا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی اس قوم اور سرزمین سے میلی آنکھ سے نہ دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔