معمار قوم بنا مسمار قوم

بی ایل اے کا دہشتگرد نام نہاد لیکچرار ڈاکٹر عثمان قاضی

استاد کی عظمت کا ہر مہذب معاشرہ میں ہمیشہ معترف رہا ہے کیونکہ اس مقدس پیشے سے منسلک افراد نے بے علمی سے علم تک کے مراحل طے کرانے میں کلیدی کردارادا کرنا ہوتا ہے اور مجموعی طور پر قوم کی تعمیر کرنا ہوتی ہے۔ اس کی خاطر استاد کو خود کو رول ماڈل بنا کے پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہی بنیادی وصف اسے دوسروں سے منفرد کرتا ہے۔ مگر جو اس سے منحرف ہو کے علم کے خواہاں افراد کو روشنی سے تاریکی کی جانب دھکیلنے میں مصروف عمل نظر آئے تو اس کی جہالت اور اس پیشے کے تقدس کو پامال کرنا اس کی نیت کو عیاں کر دیتا ہے۔

گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے  گرفتار دہشت گرد ڈاکٹرعثمان قاضی کے اعترافی ویڈیو بیان نے سب کو چونکا دیا۔ جس میں اس نے ہو شروبا انکشافات کیے ہیں کہ اس کی تعلیم کتنی ہے کہاں سے پڑھا ہے ، دہشت گردوں سے وابستگی اور تخریبی کاروائِیوں میں کس طرح سہولت کاری کی اور ملک و صوبے کے امن کو تباہی کے دھانے تک پہنچایا۔

 ڈاکٹرعثمان قاضی کا تعلق بلوچستان کے علاقے تربت سے ہے۔ وہ سرکاری جامعہ، بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجنئیرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں 18ویں گریڈ میں بطور لیکچرار منسلک رہا۔ اس نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بعدازاں پشاور یونیورسٹی سے ایچ ای سی سکالرشپ کے تحت مطالعہ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران اس کی ملاقات دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی )بی ایل اے( کے رہنما ڈاکٹر ہبیبتان کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اسے تنظیم میں شامل کرتا ہے اور پھر بی ایل اے کے سرغنہ بشیر زیب سے ملواتا ہے۔ ڈاکٹر عثمان بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے فعال رہنما کے طور پر ابلاغی ایپ ٹیلی گرام کے ذریعے سے رابطہ رکھتا اور مطلوبہ اہداف کو ٹارگٹ کرنے کی ہدایات لیتا اور ان پہ عمل کرتا رہا۔ اس نے نومبر 2024ء میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہ ہونے والے بم دھماکہ جس میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے، میں سہولت کار کے طور پہ ملوث ہوا۔ مختلف دہشت گردوں کونہ صرف پناہ دیتا رہا بلکہ  کئی زخمیوں کے علاج کے علاوہ ہر مذموم اور لعین کام میں سہولت مہیا کرتا رہا۔ اسی طرح 14 اگست 2025ء یوم آزادی کو بربادی میں بدلنے کے سازش جس میں   متعدد خودکش دھماکے اور کئی گاڑیوں کو بارودی سرنگ سے اڑانا شامل تھا، میں بھی حصہ لیا جس کے مطابق وسیع پیمانے پر بلوچستان کونشانہ بنانا تھا لیکن سرفروشان وطن نے اس وطن فروش کو دھر لیا۔

اب اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ڈاکٹر عثمان قاضی خود اپنی اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر پاکستان کے اداروں سے ان کے سکالر شپ پہ داخلہ لے رہا ہے، ڈگری بھی مطالعہ پاکستان کی حاصل کر رہا پھر اسی ملک کو تباہ کرنے والوں کا آلہ کار بنا رہا، اسی ملک کے ادارے میں اعلی گریڈ کی ملازمت اختیارکی،اسکی اہلیہ بھی سرکاری ملازم اوروالدہ بھی سرکاری پنشنر جبکہ بھائی ریکوڈک منصوبے میں ملازم یعنی ہرطرح کی مراعات اور آسائشوں سے یہ اوراس کا خاندان فائدہ اٹھا رہا مگرساتھ اسی ملک کے خلاف نفرت انگیزی اور تعصب کا نہ صرف شکار بلکہ اس کی آگ کو مزید بھڑکا رہا۔ محرومی کا ڈھونگ رچا کے عوام الناس کو  دھوکہ  دے کے ریاست کے خلاف بیانیہ گھڑنے والے لوگ خود تو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں پھینکے جا رہے۔ خود سرکار کے مزے لو اور دوسروں کو انکے بچوں کو ورغلائے رکھو، دہشت گرد بناو،دہشت گردی میں سہولت کاری کرو، بم دھماکے کراو، سرکاری املاک کو گزند پہنچاو، محافظین وطن اور معصوم شہریوں کا ناحق قتل کراو، خاندانوں کے خاندان تباہ کرو، خود ساختہ آزادی کا جھانسہ دے کر ریاست کے خلاف بلوہ کرو، اور ریاست کو گالی دو۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی منافقت کی بھی حد ہوتی ہے۔ معمار قوم جب مسمارقوم بننے لگ جائے تو لوگ کس پہ اعتبار کریں۔ جسکی عظمت زیادہ ہو اگر وہ کوئی گناہ کر بیٹھے تو اس کی سزا بھی اتنی ہی شدت کی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عثمان قاضی جیسے گھناونے کرداروں نے کتنے نوجوانوں کا مستقبل خراب کیا کتنے لوگوں کو دہشت گردی کی نظر کیا، کتنے گھروں کے چراغ گل کیے، کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیے، ہندوستان اور دیگر اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ہر چیز کو تہس نہس کیا۔ تدریس کی آڑ میں کیا کیا گند نفرت اور وطن فروشی کے حربے بتائے اور سکھائے۔ جواس مسمار قوم نے گھٹیا کرداراس کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں۔

 شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کیا کرتوت تم نے نہیں کیے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نام نہاد آزادی کے متوالے دراصل دہشت گردی میں اپنی انتہا کو چھوچکے ہیں۔ منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کر کے عام انسانوں کو تخریب کاروائیوں میں جھونکتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا آزادی نہِیں بربادی ہے۔ اس ظالم کی گرفتاری پہ نام نہاد انسانی حقوق کے تحفظ کی نام نہاد تنظیموں کا واویلا مچانا اور اس کے کرتوتوں پہ آنکھیں بند کرنا کود ایک مجرمانہ کردار ہے جس کا بنیادی مقصد مجرم کے جرائم کی پردہ پوشی کرنا اور اپنے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں جو کہ نہایت قابل مذمت کردار ہے۔ کاش کہ یہ ان لوگوں کو دیکھتے ان کی حمایت کرتے جن کے پیارے دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر ان بھیانک چہروں کو بے نقاب کریں اور انکی شدید مذمت کریں اور دنیا کو ان کی غیر انسانی سرگرمیوں سے روشناس کریں اور تدریس جیسے مقدس پیشے سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں جو ہمارے ملک اور ہماری آئندہ نسل کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات کریں۔