نفرت انگیزی معاشرے كی تباہی

كسی بھی قسم كی تفرقہ بازی چاہے معاشرتی اور معاشی طور پر ہی كیوں نہ ہو اس سے امتیازی سلوك جنم لیتا ہےجو معاشرے كے توازن كو متاثر كرتا ہے۔ چاہے وہ لسانی ہوں ،مختلف خاندانوں قبیلوں كے ہوں، مذہب یا امیری غریبی پر مبنی ہوں اس سے نفرت ابھرتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس میں توہین مذہب کی آڑ میں بے گناہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی دفعہ ایسی صورتحال میں اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔  ملکی قوانین کی  موجود ہونے کے باوجود یہ عمل نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی اقدار کے بھی منافی ہے۔

کوئی بھی صحت مند معاشرہ ایسے واقعات كا متحمل نہیں ہو سكتا اور بحیثیت مسلمان اس معاملے پر ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے كیونكہ  قرآن كریم میں سورہ المائدہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ” جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا”۔  اسلام جو کہ امن و سلامتی کا مذہب ہے اس کے پیروکار کس طرح محض شک یا غلط اطلاع ملنے   پر ملكی قانون کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے بے گناہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں؟ یقینا یہ ایك سچے مسلمان كا شیوہ نہیں كہ وہ ظالم ہو یا كسی شخص پر ہونے والے  ظلم میں  كسی كا ساتھ دے اور اس كا  نا حق  خون  بہائے ۔لیكن اس كے برعكس ہجوم كی طرف سے   پر تشدد واقعات كا رونما ہونا باعث فكر ہے۔ ہمیں بحیثیت انسان اور مسلمان اپنے محاسبے کی ضرورت ہے ۔ ہم ایسے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم كی امت ہیں جن كا تمام تر درس ہی حسن سلوك اور رحمدلی كے متعلق ہے۔تاریخ  انسانی میں میں   سنت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمدردی اور بھائی چارے  كے حوالے سے  ایک درخشاں ستارے کی مانند ہیں اور تمام مسلمانوں كو  لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی  طرف  مائل کرتی ہے،ایسے نبی کی امت ہوتے ہوئے کسی بے گناہ کے قتل کا باعث بننا باعث ندامت و شرمندگی ہے ۔ جیسا كہ   حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛  ’’تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘(معارف الحدیث – کتاب الاخلاق – حدیث نمبر 268)پس! یہ حدیث  اس بات كی عكاسی كرتی ہے كہ اسلام میں عوام الناس كے ساتھ حسن سلوك كی كتنی اہمیت ہے ۔   

 

اس پاك سرزمین پہ كہ  جس کی تخلیق ہی  اسلام کے نام پر ہوئی ہو اور جس کے آئین و قانون کا ماخذ قران و سنت نبویﷺ ہو وہاں کیسے اس قدر پر تشدد واقعات وقوع پذیر ہو سکتے ہیں ؟  كیا یہ بحثیت قوم  ہمیں غور و فكر نہیں كرنا چاہیے كہ كیوں ہم اس راہ پر گامزن ہیں جو قرآن و سنت كے بر خلاف ہے۔ ہمارے ملك میں کسی بھی قسم کی توہین كے حوالے سے قوانین موجود ہیں جن كے ملزمان كو گرفتار بھی كیا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے كی صورت میں  مجرمان كو قانون كے مطابق  كیفر كردار تك بھی پہنچایا جاتا ہے۔    ایسے میں کسی بھی طرح سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بیگنا ہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانا نہ صرف  سراسر نا انصافی ہے بلکہ قرآن و سنت كے منافی ہے ۔  ہمیں بحیثیت انسان اور مسلمان اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی فرد ایسے تشدد کا نشانہ نہ بننے پائے اور ہم بے گناہ انسانوں کی جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ملزم كو مكمل انصاف كا موقع دیا جانا چاہیے یہ ریاست كی ذمہ داری ہے جو انفرادی طور پر ادا نہیں ہوسكتی مبادایہ نہ ہو كہ كل قیامت والے دن ہمیں اس كا حساب  دینا پڑے ۔اس كے علاوہ بھی معاشرے كا توازن انصاف كے نظام سے مشروط ہے اگرہر  کوئی خود سے قانون كو ہاتھ میں لے لے گا تو اناركی كا سماں پیدا ہو جائے گا۔