کیا نظامِ اسلام پر مبنی ریاست پاکستان کو غیر شرعی
اور کفریہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی شخص یا گروه کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ
پاکستانی شہریوں یا ریاست کو مرتد قرار دے؟ خود کو مسلمان اور دوسروں کو کافر
قرار دینے کی سندتقسیم کرنا کس کا استحقاق
ہے؟ اسلام پر مبنی قوانین اور آئین کو کفریہ قرار دینا آخرکار کس کی سازش ہے؟ کیا
متنازع اور انتہا پسند گروہوں کو یہ حق حاصل ہے کہ دشمن کی ایماء پر حرکتِ عمل ہو کر ایک
اسلامی ریاست کے خلاف کفر کے فتوے جاری کریں؟ کیا پاکستان کی عوام کے ایمان کا
درجہ طے کرنے کی اجازت ان نام نہاد تنظیموں کو دی جاسکتی ہےجو نہتے اور معصوم
مسلمانوں کا کھلے عام قتل کریں؟ یہ تمام وہ سوالات ہیں جنکی گونج ہمارے اردگرد
سنائی دے رہی ہے اور جن کےبارےمیں عوام کو آگاه کرنا نہ صرف ریاست بلکہ ہر ذمّہ دار شہری کا بنیادی فرض ہے ۔
مملکتِ خدادا پاکستان دنیا کی واحد ریاست
ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کی بنیاد پر وجود میں آئی ۔ آزادی کے وقت تقریباً
چھ کروڑ مسلمانوں نے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اور اپنے اسلامی اقدار
کے تحفظ کی خاطر پاکستان کی شہریت قبول کی۔
ابتدا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ۹۵ فیصد مسلمانوں
کی زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو بےشمار مسائل کا سامنا
تھا ،اسکے باوجود حکومتِ پاکستان نے اپنے
سیاسی اور معاشی نظام کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کو اولین ترجیح دی۔
پاکستان کے بعض ملک دشمن عناصر معصوم نوجوانوں کو اس نعرے سے
گمراہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں طاغوتی نظام رائج ہے اور حکومت کا ڈھانچہ اسلامی
قوانین کے مطابق نہیں ہے ۔یہ گمراہ کن فکر حقائق سےقطعاً مطابقت نہیں رکھتی۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق سب سے زیادہ قانون
سازی ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کا ١٩۷٣ءکا آئین ہے جس کا ابتدائیہ قرارداد مقاصد پر مشتمل ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان
کا دستور اسلامی نوعیت کا حامل ہے جس کے
دستور کا آغاز ہی قرارداد مقاصد کے اس جملے سے ہوتا ہے کہ ” اللہ تعالی ہی
کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و
اقتدار اس کی مقررہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے ” ۔ یہ قرارداد مقاصد ١٢ مارچ ١٩٤٩ء کو ملک کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے دستور کا حصہ
بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دستور کے آرٹیکل ٣١ میں بھی مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی اپنانے کے
لیے مختلف پالیسی کے اصول وضاحت کے ساتھ درج ہیں ۔ مزید برآں اس آئین میں اسلامی شقوں کو باقاعدہ دستور کا
حصہ بنایا گیا ہے اور اس بات کا آرٹیکل
٢٢۷میں بھی اقرار کیا گیا ہے کہ تمام
موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے تحت اسلامی احکام کے مطابق ڈھالا جائے گا
، اور پاکستان کا کوئی قانون غیر
اسلامی نہیں ہوگا ۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ادارے جیسا کہ وفاقی شرعی عدالت ، اسلامی نظریاتی کونسل اور ادارہ تحقیقات اسلامی
قائم کیے گئے ہیں ۔
چنانچہ یہ بات واضح
ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی قوانین رائج ہیں وہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ بات
کہنا سراسر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے کہ پاکستان میں ابھی تک برٹش لاء یا برطانوی قوانین نافذ ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں جتنے بھی قوانین
برطانوی طرز کے تھے، ان کو تبدیل کر کے
اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ڈھال دیا گیا ہے ۔وقت کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترامیم ایک
مسلسل عمل ہے تاکہ تمام قوانین کی اسلام سے مطابقت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آئین کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کا قیام ہی اس لیئے
عمل میں لایا گیا تا کہ اگر کسی قانون پہ اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی اعتراض ہو تو
اسکو چیلنج کرکے کورٹ کے فیصلے کے مطابق ترامیم کی جائیں ۔ اگر فریقین اس عدالت کے
فیصلے سے بھی متفق نہیں تو انکے لیے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت مرافعہ
بینچ (Shariat Appellate
Bench) میں جانے کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ میں ایک الگ شریعت بینچ بنانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اسلام کے
مطابق قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت اور شریعت بينچ میں تعينات ججز فقہ اسلامی اور شریعت کی
سمجھ بوجھ پربھرپور عبور رکھتے ہیں۔ آرٹیکل ٢٠٣ ـ ج کے مطابق وفاقی شرعی
عدالت میں تین علماء ہوتے ہیں ،جو اسلامی قانون، تحقیق یا تعلیم میں کم از کم
پندرہ سال کا تجربہ رکھتےہیں ۔ اسکے علاوه بھی عدالت وقتاً فوقتاً ان معاملات میں علماء کرام کی رائے
حاصل کرکے اسکو فیصلے کا حصہ بناتی ہے۔ آرٹیکل ٢٠٣ ـ د کے مطابق اگر کوئی
قانون قرآن و سنت کے یا اسلامی احکام کے منافی پایا جائے تو اس کو فوری طور پر غیر
مؤثر قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے اسلامى امور پر عبور رکھنے والے ماہرینِ قانون کی بھی ایک فہرست تیار کی ہوئی
ہے، جن سے بوقت ِضرورت رائے طلب کی جاتی ہے ۔ آرٹیکل ٢٠٣ ۔ه کے مطابق اس فہرست میں
اپنا نام درج کرانے کے لیے وہی شخص اہل ہے جسے شریعت پر عبور حاصل ہو۔ یہ
ماہرین، قانونی کاروائی سے متعلق اسلامی احکام کو بیان کر کے ، ان کی تشریح اور توضیح کرتے ہیں ۔ اس کے
علاوہ دنیا بھر سے سے اسلامی قوانین کے ماہر علماء کرام کو شرعی معاملے کے حوالے
سے رائے دینے کے لیے یہ عدالت مدعو کر سکتی ہے۔
ان عدالتوں میں تعيناتی کے بعد ان
ججز کو سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوه کوئی نہیں ہٹا سکتا، اسلئے یہ ججز بغیر کسی خوف یا دباؤ ، آزادی کے
ساتھ اپنے فیصلے سنا سکتے ہیں۔ اس وضاحت کی
روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے
کہ ان نام نہاد تنظیموں کے پاس نہ تو اسلامی قوانین پر مبنی کوئی مستند شرعی نظام ہے اور نہ ہی کوئی مقدس
لائحہ عمل ۔ وادئِ سوات میں ان فسادیوں کے
فیصلوں کے زیر ِاثر آنے والے لوگ آج بھی
خوف اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔
ملکی قوانین کو غیر
اسلامی قرار دینے کے علاوہ، یہ نام نہاد
تنظیمیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ،خود کو مفتی اعظم سمجھ کر، ریاستِ پاکستان کو
کفریہ اور اسکے سیکیورٹی اہلکاروں کو مرتد
قرار دیتی ہیں ۔ مرتد سے مراد ایسا شخص ہے جس نے ارتداد کا ارتکاب کیا ہو۔اسلامی
تاریخ اور دینی ادب میں ارتداد اہم ترین اور حساس موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ
موضوع اس نقطۂ نظر سے اہم ہے کہ ایک شخص جب دین اسلام سے بہرہ یاب ہونے کے بعد اس
سے انحراف کرتا ہے اور اس کی مسلمات اور مبادیات کا انکار کر دیتا ہے تو وہ دائرہ
اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ صرف اخروی سزا کا مستحق نہیں ہو تا
بلکہ دنیا میں بھی سخت سزا کا مستوجب ٹھہرتا ہے۔چنانچہ مسلمات کفر کا ارتکاب کرنا
اور اس پر قائم رہنا ارتداد کہلاتا ہے۔اسی طرح ارتداد کی چند شرائط ہیں جن کا موجود
ہونا ضروری ہے اور اس کے چند مواقع بھی ہیں، جن کا مفقود ہونا لازم ہے۔ علماء کے
نزدیک ارتداد کے لئے بلوغ، عقل اور اختیار تینوں شرائط کا پایا جانا لازمی ہے۔ ارتداد کی سزا کی شرائط بھی مقرر ہیں ـ اگر کوئی شخص ایسی بات کرے جس سے یہ ظاہر ہوتا
ہو کہ اب وہ جس دین میں تھا اسکی حرمت کا قائل نہیں رہا یا کوئی ایسا کام کرے جس
سے ظاہر ہو کہ اسکا اب اس دین سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اس دین کو مانتا ہی نہیں
ہے، تو یہ دونوں چیزیں ثبوتِ ارتداد کے لئے کافی ہیں۔ یعنی یا تو زبان سے کوئی ایسی
بات کہے جو دین اسلام سے نکل جانے کو ظاہر کرے جیسے اللہ، پیغمبرﷺ کی نبوت یا
اسلام کی حقانیت کا انکار کرے۔ ضروریات دین کا انکار بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور
ضروریات دین اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہوں اور اس کے ثبوت
کے لئے کسی بھی قسم کی دلیل کی ضرورت نہ ہو ۔ اسی طرح اگر کوئی کفریہ کام جان بوجھ
کر کیا جائےمثلاً بُتوں کی پوجا کرنا، یا اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کی عبادت کرنا
یا اسلامی مقدسات جیسے قرآن مجید و بیت
اللہ شریف، یا رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی کی کھلم کھلا اہانت کرنا
۔(انیس الرحمٰن صدیقی اور ڈاکٹر ریاضاحمد
سعید، "شریعت ِاسلامیہ میں ارتدادکی سزا کے لیے شرائط و موانع : مسلم فقہی
مذاہب کی آراء کا تجزیہ”، جہات السلام)
ارتداد کے حوالے سے
اتنی تفصیلی بحث کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ دہشتگرد عناصر جس دھڑلے اور بے شرمی سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو مرتد اور ریاست کوکفریہ
قرار دیتے ہیں ،اسلامی رُو سے اسکی کوئی حیثیت
نہیں ہے۔یہ لوگ تو فتنہ پردازی میں اس قدر مشغول ہیں کہ مرتد کی تعریف اور شرائط
پڑھنا بھی گواره نہیں کرتے اور اپنی کم علمی کی وجہ سے خود بھی گمراہی کا شکار ہیں
اور لوگوں کو بھی گمراه کر نے کی ناکام
کوشش کرتے ہیں۔اگرایک مسلم ریاست جسکا مذہب اسلام ہے ، عوام مسلمان ہیں ، کبھی اس ریاست یا اسکے اداروں نے ، نعوذ
باللہ، دین کی تبدیلی کی بات نہیں کی تو
پھر یہ ابلیس کے پیروکار اور شیاطین کے چیلے کیسے کسی کو مرتد قرار دے سکتے ہیں ؟
پاکستان کی باشعور عوام ان کی اس فتنہ بازی کی کبھی حمایت نہیں کرتی ۔ مذہب کی غلط
تشریحات وتوضیحات کسی صورت قابلِ قبول نہیں ۔عوام پر دہشتگردانہ اور قاتلانہ حملے
کرنے والے ، ہزاروں بچوں کو یتیم بنانے والے ، ان کو والدین کی شفقت بھری چھت سے
محروم کرنے والے ، اور ہزاروں خواتین کو بیوه کرکے بے آسرا و بے سہاراچھوڑنے والے
کیا اب اس مظلوم عوام اور اداروں کو مرتد قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کریں گے؟ کیا
ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ عوام ان کے مذموم
مقاصد سے واقف ہیں اور انکی کسی گھناؤنی سازش یا چال کا حصہ نہیں بنے گی ؟ کیا اسلام
کا نام غلط استعمال کرنے پر انکی دنیا اور آخرت میں سرزنش نہ ہوگی؟ یہ لوگ نہ جانے
کیوں اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان فتنہ پھیلانے والے عناصر کے لیے نہ صرف دنیا میں
بھی تباہی ہے بلکہ آخرت میں بھی بربادی ان کا مقدر ہے۔قرآن میں انہی محارب کیلئے
ذکر ہے کہ :
ترجمہ:”جو لوگ
خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کی کوشش کریں ان کی یہی سزا ہے
کہ قتل کر دیے جائے یا سولی چڑھا دیے جائیں
یا ان کی ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک
سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا
(بھاری) عذاب تیار ہے ” ۔ (سورۃالمائدہ : آیت نمبر٣٣)
ان محاربوں کی فتنہ
انگیزی کا منہ توڑ جواب دینا ریاست کی اولین
ترجیح ہے اور ریاستِ وقت اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ اس فساد پسند ٹولے سے کس طرح
آ نہی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔اسلامی ریاست
اس بات کی کسی صورت اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے
کا اختیار رکھے اور اپنی مرضی کے احکامات جاری کر سکے ۔ایسی صورت میں ایک کامیاب اسلامی ریاست اپنے فرائض سے غافل نہیں ہو سکتی اور
ایسے عناصرسے نمٹنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے کہ: حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضى الله عنه ، أَنَّهُ سَمِعَ
النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لاَ يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلاً
بِالْفُسُوقِ، وَلاَ يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ، إِلاَّ ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إِنْ
لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ ”.
حضرت ابو ذر غفاری
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
"جو شخص کسی پر بغیر کسی وجہ کے فسق کا الزام لگائے یا اس پر کفر کا الزام
لگائے تو اگر وہ شخص بے گناہ ہو تو یہ الزام لگانے والے پر ہی پلٹ جائے گا”
۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۰۴۵)
سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں
کو مرتد قرار دینے کے علاوہ یہ دہشت گرد اپنے علاوہ
باقی تمام علماء کو نام نہاد علماء سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن و سنت کی تشریح
اور توضیح کرنے کا اختیار صرف ان کے پاس ہے اور ان کے علاوہ باقی سب علماء، علمائے
سُو ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ان
علماء کی تذلیل کرنے میں مصروف ہیں کہ جنہوں نے اپنی ساری عمر اسلام کی درس و تبلیغ
اور خدمت میں گزار دی۔یہ شرپسند عناصر دین کا دشمن بن کرحکومت کے ساتھ تعاون کرنے
والے ، امن و سلامتی کا درس دینے والے ،لوگوں کو اکٹھا کرنے کے خواہاں، انسانیت کا
پرچار کرنے والے ، اور دہشتگردی اور قتل وغارت سے منع کرنے والے علماء کرام پر
الزام کشی کرتے ہیں۔ان کے نزدیک وہی علماء عقل و فہم والے ہیں جو کہ ان کی دہشت
گردانہ کاروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اور جو علماء کرام ان کے ناپاک عزائم و افعال
کو عوام کے سامنے لا کر قرآن وسنت کی روشنی
میں اس کی مذمت کرتے ہیں، ان علمائےحق کی وہ نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ ان کے علم کو یہ یکسر رد کر دیتے ہیں۔ یقیناً
یہ لوگ وہی منافقین ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ جہنم کے سب سے نچلے گڑھے
میں ہوں گے۔سورة النساء کی آیت نمبر ١۴٥ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
ترجمہ:”بے شک منافق دوزخ کے سب
سے نچلے درجہ میں ہوں گے، اورتم انکا کسی کو مددگار نہ پاؤگے۔”
ایک طرف وہ دینی علماء ہیں جو فقہ اسلامی میں
ماہِر، ملکی اور بین الاقوامی سطح کے معتبر دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی
گزارنے کی رہنمائی و معاونت کے لیے عوام اور ریاست پاکستان کے لیے مخلص ہیں۔ یہ علمائےحق
ملک کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ دوسری جانب گمراہی میں ڈوبے ہوئے یہ دہشتگرد ہیں
جو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے اسلام کی غلط تشریح کرکے ضلالت کا شکار ہیں۔ یہ لوگ جہالت کی پستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اتنے
سالوں کی قربانیوں کے بعد عوام اس بات سے
بخوبی واقف ہیں کہ مذہب کا لبادہ اوڑھے یہ لوگ در حقیقت مذہب کے بیوپاری ہیں۔ یہ
انتہا پسند اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے
قرآن وسنت کی من گھڑت تشریح کرتے ہیں اورمذہب کو اپنے سیاسی اور شر پسند ایجنڈے کیلئے ڈھٹائی اور
بے شرمی سے استعمال کرتے ہیں ۔ان حربوں کے
بعد کیا یہ ابھی بھی عوام سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کی حمایت کریں گے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور
انہی کا قتل ِعام کرنے میں مصروف ہیں؟
ایک طرف تو یہ ہماری عوام اور اس کے
حکمرانوں کو مسلمان نہیں سمجھتےاور دوسری
طرف وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاست کے اہلکار یا حکمران جو عوام کے سامنے نماز
پڑھتے ہیں یا حج ادا کرتے ہیں تو یہ دکھاوا اور ریاکاری ہے۔ یہاں یہ سوال سامنے
آتا ہے کہ ان کو کس نے یہ اختیار اور حق دیا ہے کہ یہ لوگوں کی عبادات کے بارے میں
سوال اٹھاسکیں اور کسی کی عبادت کو ریاکاری قرار دیں۔ یہ تو اللہ اور اس کی مخلوق
کے درمیان کا فیصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ان کی منافقت کی نشانی ہے کہ اپنے علاوہ یہ کسی
کو عبادت گزار نہیں سمجھتے، نہ تو ان کو کسی کی عبادت پسند آتی ہے اور جو لوگ
عبادت کرتے ہیں، ان کی عبادت کو ریاکاری کا نام دے کر یہ گناه کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یہ بات
بھی قابل غور ہے کہ کچھ انتہا پسند تنظیمیں پاکستان کے دفاعی اداروں کی
جانب سے کی گئی امن کی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے آپریشنز
کو تاتاریوں کے حملے سے مشابہت دیتے ہیں ۔ساتویں صدی ہجری عالم اسلام پر ہونے والے
تاتاری حملوں کے تئیں یاد کی جاتی ہے جوکہ تاریخ عالم میں شاید ہی دوبارہ دہرائی
جائے گی ۔ اس کی تباہی و بربادی کو تاریخ کے اوراق میں قیامت صغریٰ سے تعبیر کیا گیا
ہے، تاتاری وہ قوم تھی جو جس شہر و سلطنت
میں داخل ہوتے کسی کو زندہ نہیں چھوڑ تے تھے ، جن ملکوں کی طرف ان کا رخ ہوجاتا وہاں
لوگوں کی جان و مال ، عزت و آبرو ،اور مساجد و مدارس کسی کی خیر نہیں رہتی تھی۔تاتاریوں
کا کسی بھی علاقے کی طرف رخ کرنا ،بربادی ، قتل عام ، ذلت و بے آبروئی کے مترادف
تھا ۔ وہ جہاں گئے تہذیب وتمدن کی تمام مایہ ناز یادگاروں کو اس طرح ریزہ ریزہ کر
ڈالا کہ ان کا سراغ لگانے کی بھی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ جہاں جہاں مختلف انسانی
گروه اجتماعی زندگی کی تنظیمات میں لگے ہوئے تھے ،تاتاری ان پر برق خاطف بن کر
گرجے اور ہر تنظیم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔اس فتنہ کی تباہی و بربادی کا تذکرہ
کرتے ہوئے مورخ ابن اثیر اپنی قلبی کیفیت اور تأثرکچھ یوں لکھتے ہیں
: ”یہ وہ حادثہ عظمیٰ اور مصیبت کبری ٰ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر
نہیں مل سکتی ، اس واقعہ کا تعلق اگرچہ تمام انسانوں سے ہے لیکن خاص طور پر
مسلمانوں سے ہے ، اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ اَز آدَم تا اِیں دَم ایسا واقعہ دنیا
میں پیش نہیں آیا تو وہ کچھ غلط دعو یٰ نہ
ہو گا ، دنیا کی تاریخ میں اس واقعہ کے پاس بھی کوئی واقعہ نہیں ملتا اور شاید
دنیا ،قیامت تک (یاجوج ماجوج کے سوا ) کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے "۔) ہیرلڈ لیم ، تاتاریوں کی یلغار ، صفحہ نمبر۷)
تاتاریوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ
انہوں نے جس سرزمین پر قدم رکھا،تباہی وہاں کا مقدر ٹھہری ۔ دوسری جانب پاکستان کےسیکیورٹی
اہلکاروں اور قوم نے امن کی خاطر بیش بہا
قربانیاں دی ہیں ،چاہے وہ جنت نظیر وادی سوات کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہو یا
جنوبی وزیرستان سے ان کا خاتمہ ہو ۔دہشت گرد تنظیموں کے سکولوں اور کالجوں پر حملے
اور معصوم بچوں کی جانوں کی قربانی اس بات
کو واضح کرتا ہے کہ انکا اپنا نظریہ دراصل
تاتاریوں سے مماثلت رکھتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان موجودہ دور کے تاتاریوں کو منہ کی کھانی پڑی ،اسی لیے یہ ہمیشہ پاکستان
کی افواج اور سیکیورٹی فورسز کے اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ ان کی
دہشت گردانہ کاروائیوں اور حرکات و سکنات اس بات کی گواہ ہیں کہ ان کی تمام حرکات تاتاریوں سے ملتی جلتی
ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر دھاوا بول کر امتِ مسلمہ کو شرمسار کیا
اور غیر مسلم ممالک کے لیے مذاق بنوایا کہ
کیسے یہ مسلمان خود آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔
آرمی پبلک سکول کے سانحے کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جس میں انہوں نے معصوم کلیوں کو بے دردی سے مسخ دیا۔مساجد
جو کہ الله کا گھر ہیں، یہ ظالم و فاسق لوگ وہاں بھی لوگوں کو سکون سے الله کی
عبادت نہیں کرنے دیتے۔انہوں نے کئی مساجد کو بم دھماکوں سے اڑا دیا جس میں کئی
لوگ لقمہء اجل بنے۔ جو لوگ الله کے گھر کو حملوں سے محفوظ
نہ رکھیں اور عبادت کرتے ہوئے لوگوں پر حملہ آور ہوں، وہ لوگ کیسے مسلمان ہونے کا
دعویٰ کر سکتے ہیں ؟ اس لیے موجودہ دور کے ان تاتاریوں کے بیخ کنی کرنا اسلام کے
عين مطابق اور ریاست پر فرض ہے ۔الغرض، ان کے اپنے افعال اور اطوار تاتاریوں کے نقش قدم پر چلنے کی چیخ چیخ کر
گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح یہ بغیر کسی رحم اور تفریق کے عوام پر حملے کرتے ہیں۔ یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصادق ہے۔ ان
کی یہ بے حسی اور بے شرمی عوام سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام
پاکستان کے قیام کی
بنیاد ہی اسلامی نظریہ تھا، اور یہی اس کی شناخت کا محور ہے۔ ہماری سیاسی اور معاشی
نظام اسلامی اقدار پر استوار ہے، اور ١٩۷٣ء کے آئین میں اس عزم کی واضح عکاسی ملتی ہے۔ آئین میں یہ بات صاف لفظوں میں درج ہے کہ کوئی بھی قانون
جو اسلام کے منافی ہو، پاکستان میں نافذ نہیں کیا جائے گا۔یہ عزم صرف الفاظ تک
محدود نہیں رہا، بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے متعدد ادارے قائم کیے گئے ہیں۔
وقف بورڈ، وفاق المدارس، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت جیسے ادارے اسلامی
اقدار کے تحفظ اور فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔پاکستان میں قائم تقریباً ۳ لاکھ مساجد
اور ۳ ہزار سے زائدرجسٹرڈ مدارس اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ ریاست اپنے شہریوں کے
اسلامی تشخص کے تحفظ کی ذمّہ داری پوری ایمانداری سے نبھا رہی ہے۔تاہم، یہ بات بھی
حقیقت ہے کہ کچھ گمراہ کن اور انتہا پسند عناصر مسلسل پاکستان کی اسلامی حیثیت کے
خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ یہ الزامات بے بنیاد اور غیر حقیقی ہیں ۔ در حقیقت یہ
بذاتِ خود موجوده دور کے تاتاری ہیں اور ماضی کے تاتاریوں کی طرح قتل و غارت میں
مصروف ہیں ۔ دہشتگرد عناصر زہریلا اور گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا کرگناہ کے
مرتکب ہو رہے ہیں ۔یہ اس دنیا اور آخرت دونوں میں سزا کے مستحق ہیں۔پاکستان ایک ایسا
اسلامی جمہوری ملک ہے جو اپنے شہریوں کو
آزادی، انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا عزم رکھتا ہے ۔ ہم سب کو مل کر اس نظریے کی
حفاظت کرنی ہے تا کہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک