پاکستان میں صحافیوں پر حملے:     دہشت گردوں کا نیا خُونی محاذ

یہ ایک عام فہم عقیدہ ہے کہ ‘دہشت گردی ایک  تھیٹر  ہے’ جس کے مختلف پہلوؤں میں یہ بات شامل ہے کہکہ دہشت گردی، تشہیر سےپروان چڑھتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت دہشت گرد خود کو مرکزی کردار کے طور پر  میڈیا میں پیش کرتے ہیں اور اور ان کو اپنی  مقبولیت  کیلئے تماش بین چاہیئے ہوتے ہیں ۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، یہ تشہیر اکثر اوقات صرف تشہیر کے لیے ہوتی ہے اور اس کا مثبت ہونا ضروری نہیں ہے۔ دہشت گرد اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ عام لوگوں کا رجحان ان کے خلاف ہے، اس لیے وہ  عام طور پر کسی بھی قسم کی تنقید اور مخالفت  پر کان نہیں دھرتے اور خود کو اس سے مبرّا سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے اصل میں یہ بات اہم ہے کہ لوگ انکی کاروائیوں کو دیکھیں اور جتنے زیادہ لوگ دیکھیں گے اور انکے متعلق بات کریں گے، اتنی ہی زیادہ انہیں تشہیر ملے گی۔ اس صورتحال سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد جان بوجھ کر ان صحافیوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں، جو انکے مظالم کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور انہیں ان کی بقاء کی رگِ حیات – یعنی تشہیر – فراہم کرتے ہیں؟

" دہشت گرد جان بوجھ کر ان صحافیوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں جو ان کے مظالم کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور انہیں ان کی بقاء کی رگِ حیات – یعنی تشہیر – فراہم کرتے ہیں؟ "

بظاہر یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ تشہیر پر پلنے والی تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)  اور اس جیسی  دیگر دہشتگرد گروہوں نے صحافیوں اور میڈیا کے اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے روایتی طریقہ کار سے یہ انحراف  واضح طور پر جداگانہ اور انوکھا ہے۔ دہشت گرد وں کا مقصد عام طور پر سُرخیوں میں رہنا ہوتا ہے اور انہیں خبروں کے مواد یا اسے فراہم کرنے والے صحافیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ اس لیے صحافیوں اور میڈیا شخصیات کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا روایت سے ہٹ کر ہے اور کچھ لحاظ سے خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف بھی ہے۔

‘دہشتگردی ایک تھیٹر ہے  ‘کے فلسفے کو  ذہن میں رکھتے ہوئے  یقیناً یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنا کر دہشتگردوں کو میڈیا  میں ڈرامائی انداز میں کافی اہمیت ملے گی اور انکی عام حالات سے بھی زیادہ تشہیر ہو گی۔ یہ دلیل اس وقت معنی رکھتی اگر اس طرح کے حملے بلا امتیاز اور بے ترتیب ہوتے اور متاثرہ صحافی غلط وقت پر غلط جگہ پر ہوتے۔ تاہم، حالیہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جن صحافیوں پر حملہ کیا گیا، ان کا انتخابانتہائی احتیاط سے کر کے انکو حملے کیلئے چُنا گیا۔ صحافی خلیل جبران کا بہیمانہ قتل، اس کی ایکحالیہ مثال ہے۔

18 جون    2024 کو تحصیل لنڈی کوتل، ضلع خیبر کے پریس کلب کے سابق صدر خلیل جبران کو ‘نامعلوم حملہ آوروں’ نے بے رحمی سے گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور اور اندها دهند فائرنگ کرکے شہید کر دیا ۔اگرچہحملہ آور مبینہ طور پر’ نامعلوم’ تھے،مگرتحصیل لنڈی کوتل میں ٹی ٹی پی کی مضبوط موجودگی سے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ ایک معزز اور بہادر صحافی کی ٹارگٹ کلنگ صرف    ٢٠٢۴ءمیں اپنی نوعیت کا چھٹا واقعہ ہے۔

یہاں  یہ بتانا  ضروری ہے کہ خلیل جبران اور ان سے پہلے جن صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا وہ تمامصحافی  ٹی ٹی پی،داعش خراسان اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے  اہم ناقدین تھے۔یہ بہادر صحافی  ان دہشت گرد تنظیموں کی وحشیانہ بربریت کو بے نقاب کرنے کے لیے نکلے تھے تاکہ ان کے جرائم،  ناپاک عزائم اور اور ظلم و ستم کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کر سکیں۔

مخصوص صحافیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنانا  یہ بات واضح کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس جیسی تنظیمیں، دیگر دہشت گرد تنظیموں کے برعکس، صرف تشہیر حاصل کرنے کی خواہاں نہیں بلکہ  اپنے ناقدین کو بے رحمیسے نشانہ بنا کر اور دوسروں کو خبردار کرتے ہوئے، وہ ایک منظم طریقے سے ‘صحیح قسم کی تشہیر’ حاصل کرنا چاہتی  ہیں۔ ان کے مظالم کا مقصد واضح طور پر دوسرے صحافیوں کو دہشت گرد تنظیموں پر تنقید کرنے سے روکنا ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس جیسی تنظیمیںصرف سرخیاں حاصل کرنا نہیں چاہتیں،بلکہ وہ انہیں لکھنا بھی چاہتی ہیں۔ ان کا تعلق محض تشہیر کی قسم سے نہیں بلکہ وہ اب اس تشہیر کے مواد کو اپنے مفاد کے مطابق حرف بحرف تحریر کرا ناچاہتی ہیں۔

" ٹی ٹی پی اور اس جیسی تنظیمیںصرف سرخیاں حاصل کرنا نہیں چاہتیں،بلکہ وہ انہیں لکھنا بھی چاہتی ہیں۔ ان کا تعلق محض تشہیر کی قسم سے نہیں بلکہ وہ اب اس تشہیر کے مواد کو اپنے مفاد کے مطابق حرف بحرف تحریر کرا ناچاہتی ہیں۔”

خلیل جبران اور ان سے پہلے بہت سےصحافیوںکی بہادری اور بے لوث قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو صحافی برادری کو ڈرانے دھمکانے اور ان پر ظلم کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ٹی ٹی پی اور ان کے ساتھی دہشت گرد گروہوں کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے لانا چاہیئے۔ مختصر یہ کہ ان کے انسانیت سوز جرائم کو غیر مشروط طور پر بے نقاب  کرنے کیلئے مزیداقدامات جاری رکھنےچاہئیں۔