پاکستان کا جہاد دفاعی جہاد ہے: گمراہ کن فتوی دہشت گردوں کے نام نہاد مفتی استاد احمد فاروق کی جانب سے پاکستان کا جہاد دفاعی جہاد ہے، عنوان کا فتوی جاری ہوا۔ جس کے مندرجات سراسر بد نیتی ، علمی بددیانتی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پہ مبنی ہیں جو گمراہی کا سبب بن […]
پاکستان کا جہاد دفاعی جہاد ہے: گمراہ کن فتوی
دہشت گردوں کے نام نہاد مفتی استاد احمد فاروق کی جانب سے پاکستان کا جہاد دفاعی جہاد ہے، عنوان کا فتوی جاری ہوا۔ جس کے مندرجات سراسر بد نیتی ، علمی بددیانتی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پہ مبنی ہیں جو گمراہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس اعلامیہ کو کٹہرے میں لایا جانا ضروری ہے تاکہ سچ اور حق سب کو روشناس کروایا جا سکے۔
کیا اسلامی ریاست جس کا آئین قرآن وحدیث کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہو، کے خلاف جنگ جائز ہے؟ کیا اسے جہاد کہنا درست عمل ہے؟ کیا علمائے سوء اپنا نام نہاد فتوی کسی پہ مسلط کر سکتے ہیں؟ کیا علمائے حق اور مدارس کو چن چن کے شہید کرنا جہاد ہے؟ کیا دہشت گردوں ،ان کے سہولت کاروں اور دیگر جرائم میں مطلوب افراد کو پناہ دینا جائز فعل ہے؟ اسلام اور ریاست دشمن شیطانی قوتوں کے ایجنڈا کی تکمیل کے لیے ان کا آلہ کار بننا اسلام کی خدمت کر رہے ہیں؟ریاست میں اسلام کا نام لے کر بلوہ کرنا، معصوم لوگوں اور محافظین ریاست کا قتل کرنا، بچوں کو ذبح کرنا جہاد ہے؟ اسلامی ریاست کے امن کو تباہ کرنے کی خاطر اسلام دشمن طاقتوں سے مدد مانگنا اسلام سے دشمنی نہیں؟ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ریاست سے کیے معاہدے سے منحرف ہونا مسلمان ہونے کی نشانی ہے؟ یقینا ان سوالات کا جواب فتنہ پرور افراد کے پاس نہیں ہے۔
اسلام کی رو سے جہاد کا اعلان صرف مسلم ریاست کی حکومت ہی کر سکتی ہے جو تمام عوام الناس کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج ملک کی ںنظریات و زمینی حدود کے تحفظ کا وہ حق رکھتی ہے جو ریاست اور اس کی عوام نے اسے دیا ہوا ہے۔ اس کی خاطر اس نے ہر طرح کی قربانیاں دیتی آرہی ہے۔ اس کے خلاف دشمن کئی دہائیوں سے دیرینہ خواہش لے کے مختلف حربے آزماتا ںظرآتا ہے کہ اسلامی ریاست کی دفاعی قوت کو کمزور کیا جائے اس کے لیے طرح طرح کی ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔ اصلاح کے نام پہ فسا برپا کرنے والوں کا تعارف قرآن کریم نے 14 سو سال پہلے ہی کرا دیا تھا اور خواراج کی نشانیاں واضح کر دی گئی ہین جو موجودہ دور کے دہشت گردوں کے جتھوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
علماء کو انبیاء کے وارث قرار دیا گیا ہے اور علمائے حق ہی اس پہ اترتے ہیں جبکہ علمائے سو طاغوتی طاقتوں کے در پہ پڑے ہوتے ہیں اور حزب الشیطان کی صفوں میں رحمانی قوت کے خلاف صف آراء ہوتے نظر آتے ہیں اور یہی کچھ یہ نام نہاد مفتیان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کبھی آج تک ان دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مذمت نہیں اور ان کے جرائم پہ لعن طعن نہینں کیا بلکہ ان کے ہر اسلام دشمن فعل کی مکمل تائید کی اور حمایت کی یہ لوگ قابل گرفت ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارت نے پاکستان میں مساجد، مدارس اور نہتے لوگوں کو میزائل داغ کے شہید کیا گیا اس وقت بھی ان نام نہاد مجاہدوں کے منہ سے ایک لفظ بھی بھارت کے خلاف اس ظلم پہ نہیں نکلا کیونکہ یہ اسی در کا کھاتے ہیں دہشتگردی کرنے کے لیے۔تو اس کے خلاف کیسے بولیں ۔ اسی طرح سے جو کچھ فلسطین خصوصاً غزہ میں اسرائیل اپنی بربریت ڈھاتا آ رہا ہے ان کی زبانوں میں کوئی جنبش دیکھنے کو نہیں ملی اور یہ دم بھرتے ہیں اسلام کا ۔قول و فعل میں مکمل تضاد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ دہشتگرد اسلام اور مسلمان سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتے تو ان کی کارستانیوں کو دیکھ کے کیونکر ان پہ کوئی اعتبار کرے یا اپنا مسیحا مانے۔ عوام ان خون آلود ہاتھوں اور ان کے جہلاء پن سے باخوبی واقف ہو چکی ہے اور ان کے لعین امور کی وجہ سے ان سے شدید نفرت کرتی ہے جن کی وجہ سے اسلام کا اصل تشخص خراب ہوا۔
****
© 2025 PPN - پرامن پاکستان نیٹ ورک