گندم کی خریداری کا معاملہ اور ٹی ٹی پی  کا پروپیگنڈا

دہشت گرد تنظیموں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک میں در پیش مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے پروپیگنڈا کرنے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں ۔ اپنے مذموم  عزائم کے حصول کیلئے وہ معصوم  عوام کو بہکانے اور گمراه کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، چاہے  وہ مشکلات  قدرتی آفات کی صورت میں ہوں یا سماجی،سیاسی یا معاشی مسائل  ۔ حالیہ دنوں میں ہی ملک میں گندم کی خرید و فروخت کے حوالے سے کسانوں کے کچھ تحفظات سامنے آئے  ہیں ۔ کسان برادری نے کچھ مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں جو متعلقہ حکومتی اداروں کے زیرِ غور ہیں۔ عوام کی جانب سے پیش کیے جانے والے یہ جائز مطالبات کسی بھی جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں  جہاں ہر شخص کو دستور کے مطابق اظہار رائے کی اور پرامن احتجاج کی آزادی ہوتی ہے۔اس صورتحال سے بہترین طریقے سےنمٹنےکیلئے حکومت نے کیبنٹ سیکریٹری کامران على افضل کی سرکردگی میں ایک تفتيشى کمیٹی بھی تشکیل دی ہے ، جسکا مقصد کسانوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔

دوسری جانب اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک  دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (تحریکِ ظالمان ) نے کسان برادری کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے کا ناٹک کیا  ہے اور انکے مسائل کو بڑھا چڑھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان انتہا پسند تنظیموں کے علاوہ کوئی انکے دکھ کا مداوا کرنے والا نہیں ہے ۔یہاں پر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ  ملک میں بربادی، فتنہ، قتل و غارت اور دہشت گردی پھیلانے والی یہ تنظیمیں کیا  اب کسانوں کے حقوق کی بات کریں گی؟ نسلوں اور فصلوں کو اجاڑ نے والے اب ہمدردی کا لبادہ اوڑھے ان کسانوں کا والی وارث بننے کا ڈھونگ رچائیں گے؟ ملک میں موجود انتہائی قابل اور تعلیم یافتہ ماہرینِ اقتصادیات کی موجودگی میں یہ نام    نہاد دہشتگرد ماہرین اب حکو مت کے خلاف کسان برادری کو مشوره دیں گے ؟ انکے یہ اقدامات صرف اور صرف ان کی مسخ شدہ چہرے کو منظر عام پر لاتا ہے  جو غلط بیانی کے ذریعے عوام کو بہکا کر حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی ناکام  کوشش کرتے ہیں۔

حکومت کے سامنے ان مطالبات کا اظہار، کسان برادری کا حکومت پر اعتماد اور یقین ظاہر کرتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت ہی انکے مسائل کے حل کی ضامن ہے۔ یہ جمہوری نظام ہی ہے کہ جہاں آزادئ رائے کی بدولت عوام حکومت کے سامنے اپنے مسائل پیش کر سکتی ہے جبکہ  نظامِ جمہوریت کےمخالف یہ دہشتگرد عناصر تو خود اپنی تنظیم میں اختلافِ رائے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے نظریے کو حرفِ آخر قرار دیتے ہیں۔اس تنگ نظری کے بعد کیا یہ دہشتگرد ، کسانوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کا  کوئی جواز رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ خود بتانا پسند کریں گے کہ ان دہشت گرد عناصر نے کسانوں کی یا عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کیا اقدامات لیے ہیں؟ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے عوام اور کسان برادری  ان کے پھیلائے ہوئے شر اور فساد کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

پاکستان نے تاریخ میں بھی ایسے کئی مسائل کا سامنا کیا ہے اور ہمیشہ اپنے لوگوں کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔کوئی بھی دہشت گرد تنظیم اس جمہوری نظام، حکومت اور عوام کے اس اٹوٹ رشتے کو کھوکھلا نہیں کر سکتی ۔ دہشتگرد جماعت   اپنے مذموم مقاصد میں کبھی  کامیاب نہیں ہو سکے گی۔